ائمہ مساجد کی معاشی زبوحالی! ذمہ دار کون ؟ از۔ محمد رمضان امجدی مہراج گنج

نیپال اردو ٹائمز NEPAL URDU TIMES (साप्ताहिक नेपाल उर्दू टाइम्स)

ائمہ مساجد کی معاشی زبوحالی! ذمہ دار کون ؟



از۔ محمد رمضان امجدی مہراج گنج

امامت ایک انتہائی عظیم الشان منصب ہے جسے امام الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء کی نیابت کا شرف حاصل ہے خود حضور سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی پوری مبارک زندگی امت کی امامت فرماتے رہے۔ آپ کے بعد خلفاء راشدین اور ان کے بعد سلاطین اسلام نے منصب امامت کو اپنے لیے باعث عز و شرف سمجھا۔ جس وقت دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا غلبہ تھا سیاسی سماجی معاشی اور علمی اعتبار سے دنیا کی کوئی قوم مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں تھی اس وقت ائمہ مساجد کا مقام و مرتبہ غیر معمولی تھا ۔ ائمہ کرام نہ صرف پنج وقتہ نمازوں، عیدین و جنازہ کینمازوں میں قوم مسلم کی امامت کرتے تھے بلکہ سیاسی، سماجی، معاشی اور گھریلو معاملات کے حل کے لیے لوگ ان سے رجوع کر کے اپنے مشکل مسائل کا حل طلب کیا کرتے تھے ۔ گویا امام  مسجد کو مصلی نماز کے ساتھ دیگر شعبہ حیات میں بھی اپنا امام و قائد تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن عصر حاضر میں  ہمارے معاشرے میں ائمہ مساجد کی جو اہمیت اور معاشی و سماجی پوزیشن ہے کسی پر مخفی نہیں ۔ اس دور میں ہر مسلمان عظمت امام کا زبانی طور پر قائل تو نظر آتا ہے لیکن عملی طور پر اس سے امام کی عزت و احترام کا فقدان صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ائمہ کرام  جنہیں حاکمانہ شان و شوکت حاصل تھی آج محکوم ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ان کی تقرری و معزولی کے ضابطے کا کوئی تصور بھی موجود نہیں ۔ بلا عذر شرعی معزول کرنے کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ ائمہ کرام کے ذمے پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی سے امامت کے ساتھ مکتب کی تعلیم ،نیاز فاتحہ ،میلاد، نکاح خوانی،جنازہ،  دعاء خوانی تک کے خدمات شامل ہیں اس کے عوض تنخواہ کے نام پراتنی قلیل رقم دی جاتی ہے کہ ان کو کسی کے سامنے اپنی تنخواہ بتانے میں بھی شرم آتی ہے ۔ سات، آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لوگ اپنے گھروں میں کام کرنے والی دائیوں کو دے دیا کرتے ہیں جبکہ اس ہوش ربا گرانی کے وقت میں یہی تنخواہ 24 گھنٹے کی خدمات انجام دینے والے امام صاحب کو دی جاتی ہے ۔ حالانکہ مساجد کے متولیان سمیت پوری قوم کو خبر ہے کہ اتنی قلیل رقم میں گھر چلانا تو دور بچوں کے اسکول کی فیس بھی صحیح طریقے سے ادا نہیں کی جا سکتی ۔۔ ذرا سوچئے کہ اتنی تنخواہ میں وہ پورے مہینہ کس طرح گذارہ کرتے ہوں گے۔حق بات تو یہ ہے کہ ائمہ مساجد کے بچے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترس جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اما م صاحب کے کپڑوں سے آپ اندازہ نہیں لگاپائیں گے کہ ان کی تنخواہ اتنی معمولی ہے ۔ یہ اللہ کا فضل اور اس کا خصوصی احسان ہے کہ اس مفلسی میں بھی وہ اپنا وقار بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مساجد کے متولیان غریب ہیں۔ نہیں صاحب! وہ تو اپنے چند دوست واحباب کی دعوت پر اتنا خرچ کردیتے ہیں جتنا کہ امام مسجد کی مہینے بھر کی تنخواہ ہوتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسجد کے بجٹ میں پیسہ نہیں ہے بلکہ خزانے میں لاکھوں روپے موجود ہوتے ہیں باوجود اس کے امام کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اندون مسجد سے خارج مسجد تک پھر استنجاء خانہ بیت الخلاء تک میں ماربل اور ٹائلس لگاۓ جاتے ہیں مسجدوں کو خوبصورت بنانا بڑی اچھی بات ہے ۔ لیکن امام کے معاشی تنگدستی کو صرف نظر نظر کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟

اس ماڈرن دور میں مسجدیں نقش و نگار کا نمونہ ہوتی جارہی ہیں، ٹائلس ، ماربل، اے۔ سی کولر ،گیزر اور طرح طرح کی سہولیات بہم پہونچانے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کیا جاسکتاہے تو ائمہ کی تنخواہ کو معیاری کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ ٹائلس ، ماربل اور الیکٹرانک اشیاء سے مزین مساجد کے ذمہ داران کی نظر کبھی اس مسجد کے امام کے بوسیدہ مکان پر کیوں نہیں پڑتی؟ موٹی فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلوانے والےافراد کو اپنی مسجد کے امام کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال کیوں نہیں آتا ؟ ائمہ کرام کو صبر و توکل کا سبق سکھانے والے لوگ فقط ایک مہینہ اپنی تنخواہ کوامام صاحب کی تنخواہ سے بدل کر دیکھیں اور ایثار و قربانی کی لذت حاصل کرکے اپنے ایمان کو بھی ذرا آزمائیں کہ توکل اور صبر کا مادہ ان کے اندر کس حد تک موجود ہے۔ مساجد کے ذمہ داران کو کم از کم امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے کی گرانی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے۔ آج کےوقت میں‏ایک شخص 8/10 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جن کو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے ‏چاہتے ہیں۔  ائمہ کرام کی قلیل تنخواہ اور ان کی معاشی تنگدستی دیکھ کر آج لوگ اپنے بچوں کو علم دین سے دور کرتے نظر آرہے ہیں بہت سے باصلاحیت اور قابل قدر ائمہ کرام معاشی تنگدستی کی بنا پر اپنے روزمرہ کی ضروریات نہ پوری ہونے کی وجہ سے منصبہ امامت کو چھوڑ کر غیر ملکوں میں ملازمت کرنے کے لئے مجبور ہوچکےہیں۔ ایک درد مند دل رکھنے والے مسلمان کا کلیجہ یہ سن کر منہ کو آجاۓ گا کہ اپنی تنگدستی اور مساجد کے ذمہ داران کی زیادتیوں سے عاجز آکر  کئی ایک امام ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں ۔ائمہ، مؤذنین اور خدام مساجد کی 24 گھنٹے کی خدمات کے باوجود آج بہ کثرت دیکھنے میں آرہاہے کہ متولیان وذمہ داران کی جانب سے ان حضرات کی مسلسل توہین و تنقیص ہورہی ہے،ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و سستی برتی جا رہی ہے بلکہ ان کو ستانے اور تکلیف پہونچانے کے بہانے تلاشے جارہے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی عزت نفس کو مجروح کیاجارہاہے۔جو نہایت افسوس ناک بات ہے۔ حالانکہ امامت کا منصب حقیقتاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا منصب ہے اپنے کسی قول و عمل سے اس منصب جلیل کی پامالی کا سبب ہرگز نہ بنیں اور قوم کی ذمہ داری یہ ہے کہ خدام  مسجد امام، موذن بلکہ خادمان مدارس و مکاتب کی حاجت، علمی قابلیت، صلاح و تقوی کو ملحوظ رکھ کر مشاہرہ و تنخواہ کا انتظام کریں اور ہمیشہ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں اپنے کسی طرز انداز سے ان کے احترام کو پامال نہ کریں۔ ورنہ دنیا و آخرت کا جو خسارہ ہوگا اسے کسی طرح پر کرنا ممکن نہیں ہوگا

  

 

 


Comments