ائمہ
مساجد کی معاشی زبوحالی! ذمہ دار کون ؟
از۔
محمد رمضان امجدی مہراج گنج
امامت
ایک انتہائی عظیم الشان منصب ہے جسے امام الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء کی نیابت
کا شرف حاصل ہے خود حضور سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی پوری مبارک زندگی
امت کی امامت فرماتے رہے۔ آپ کے بعد خلفاء راشدین اور ان کے بعد سلاطین اسلام نے
منصب امامت کو اپنے لیے باعث عز و شرف سمجھا۔ جس وقت دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں
اسلامی تہذیب و ثقافت کا غلبہ تھا سیاسی سماجی معاشی اور علمی اعتبار سے دنیا کی
کوئی قوم مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں تھی اس وقت ائمہ مساجد کا مقام و مرتبہ غیر
معمولی تھا ۔ ائمہ کرام نہ صرف پنج وقتہ نمازوں، عیدین و جنازہ کی
اس ماڈرن دور میں مسجدیں نقش و نگار کا نمونہ ہوتی جارہی ہیں، ٹائلس ، ماربل، اے۔ سی کولر ،گیزر اور طرح طرح کی سہولیات بہم پہونچانے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کیا جاسکتاہے تو ائمہ کی تنخواہ کو معیاری کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ ٹائلس ، ماربل اور الیکٹرانک اشیاء سے مزین مساجد کے ذمہ داران کی نظر کبھی اس مسجد کے امام کے بوسیدہ مکان پر کیوں نہیں پڑتی؟ موٹی فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلوانے والےافراد کو اپنی مسجد کے امام کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال کیوں نہیں آتا ؟ ائمہ کرام کو صبر و توکل کا سبق سکھانے والے لوگ فقط ایک مہینہ اپنی تنخواہ کوامام صاحب کی تنخواہ سے بدل کر دیکھیں اور ایثار و قربانی کی لذت حاصل کرکے اپنے ایمان کو بھی ذرا آزمائیں کہ توکل اور صبر کا مادہ ان کے اندر کس حد تک موجود ہے۔ مساجد کے ذمہ داران کو کم از کم امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے کی گرانی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے۔ آج کےوقت میںایک شخص 8/10 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا اور کئی ضروریات ہیں جن کو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے چاہتے ہیں۔ ائمہ کرام کی قلیل تنخواہ اور ان کی معاشی تنگدستی دیکھ کر آج لوگ اپنے بچوں کو علم دین سے دور کرتے نظر آرہے ہیں بہت سے باصلاحیت اور قابل قدر ائمہ کرام معاشی تنگدستی کی بنا پر اپنے روزمرہ کی ضروریات نہ پوری ہونے کی وجہ سے منصبہ امامت کو چھوڑ کر غیر ملکوں میں ملازمت کرنے کے لئے مجبور ہوچکےہیں۔ ایک درد مند دل رکھنے والے مسلمان کا کلیجہ یہ سن کر منہ کو آجاۓ گا کہ اپنی تنگدستی اور مساجد کے ذمہ داران کی زیادتیوں سے عاجز آکر کئی ایک امام ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں ۔ائمہ، مؤذنین اور خدام مساجد کی 24 گھنٹے کی خدمات کے باوجود آج بہ کثرت دیکھنے میں آرہاہے کہ متولیان وذمہ داران کی جانب سے ان حضرات کی مسلسل توہین و تنقیص ہورہی ہے،ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و سستی برتی جا رہی ہے بلکہ ان کو ستانے اور تکلیف پہونچانے کے بہانے تلاشے جارہے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی عزت نفس کو مجروح کیاجارہاہے۔جو نہایت افسوس ناک بات ہے۔ حالانکہ امامت کا منصب حقیقتاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا منصب ہے اپنے کسی قول و عمل سے اس منصب جلیل کی پامالی کا سبب ہرگز نہ بنیں اور قوم کی ذمہ داری یہ ہے کہ خدام مسجد امام، موذن بلکہ خادمان مدارس و مکاتب کی حاجت، علمی قابلیت، صلاح و تقوی کو ملحوظ رکھ کر مشاہرہ و تنخواہ کا انتظام کریں اور ہمیشہ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں اپنے کسی طرز انداز سے ان کے احترام کو پامال نہ کریں۔ ورنہ دنیا و آخرت کا جو خسارہ ہوگا اسے کسی طرح پر کرنا ممکن نہیں ہوگا
Comments
Post a Comment