نیپال میں اردو صحافت کاارتقائی سفر اور نیپال ار دو ٹائمز۔ ایک تجزیاتی مطالعہ





از:محمد رضاقادری نقشبندی مصباحی                                                                                                                     

 آج سے تقریبا بیس روز قبل کی بات ہے میں چمنستان حضور حافظ ملت، جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں واقع اپنے حجرے میں ٹہل رہا تھا اور سوچ و فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا، بار بار ہندو نیپال کے مسلمانوں کے مستقبل کو سوچ کر دل و دماغ کرب کے عالم سے دوچار ہو رہا تھا، کہ دفعتا ذہن کے پردے پر روشنی کی ایک کرن نمودار ہوئی وہ کرن یہ تھی کہ مایوسیوں کی شب دیجور میں امید کا ایک چراغ جلا دیا جائے ۔تاریکیوں کو بار بار کوسنے سے تاریکی ختم نہیں ہو سکتی ،تاریکی ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایک شمع روشن کر دیا جائے ہم نے حضور حافظ ملت کے فیضان کے سہارے اس پہلو پر سوچنا شروع کیا،  یوں تو تقریبا گزشتہ تین سالوں سے میرا دل و دماغ مسلسل اس پہلو پر سوچ رہا تھا کہ نیپال جیسے وسیع و عریض ملک سے ہمارا اپنا اخبار جاری ہونا چاہیے ،دو سال قبل ہم نے صحافیوں کی ایک ٹیم بھی جمع کر لی تھی مگر حسن اتفاق یہ سب نیپالی زبان ہی تک محدود رہنے والے صحافی تھے ،ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر ان کو ڈیل کرنا اور اپنے پلان کے مطابق ان سے کام لینا اس وقت میرے لیے ممکن نہ تھا اس لیے وقت کا انتظار کرتا رہا اور اردو زبان میں صحافت کےابتدائی سفر کے بارے میں سوچتا رہا۔نیپال جیسی  سنگلاخ زمین اور اردو کے حوالے سے بےآب و گیا ہ صحرا سے اردو زبان میں ہفت روزہ یا روزنامہ نکالنے کے بارے میں سوچنا جوے شیر لانے کے مترادف تھا؛ کیوں کہ اس زمین کی مٹی نے سوائے نیپالی، ہندی اور مقامی زبانوں کے کسی بھی غیر ملکی زبان کو پنپنے کا موقع نہیں دیا، نہ حکومتی سطح پر اردو، فارسی اور عربی جیسی بین الاقوامی زبانوں کی پذیرائی کی گئی ،یہی وجہ ہے کہ اردو، فارسی اور عربی اپنی قدامت کے باوجود نیپال کی وادیوں میں اجنبی زبانیں بنی رہیں ،کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے وہاں کے حکومتی مزاج کا بڑا دخل ہوتا ہے ،وہاں ایسے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں جن سے زبانوں کو فروغ ملے مثلا یونیورسٹیوں، کالجوں میں اردو، عربی اور فارسی کے ڈیپارٹمنٹ قائم کئے جاتے، زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے اکیڈمیاں قائم کی جاتیں، اسکولوں اور مدرسوں میں حکومت کی طرف سے اردو اساتذہ مقرر کیے جاتے تو ان زبانوں کو اس دیار میں فروغ و توسع حاصل ہوتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ، اس لیے یہ زمین غیر ملکی زبانوں کی آبیاری کے حوالے سے عقیم (بانجھ) اور بنجر واقع ہوئی ہے، یہاں اردو کے نام پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ نیپالی  اور ہندوستانی مسلمانوں کی اپنی کاوش ہے، یہاں کے مسلم باشندوں نے اپنی مذہبی ضروریات کے پیش نظر مدرسوں کا جال بچھایا اور اس میں ذریعہ تعلیم اردو کو بنایا، یوں ہی علما نے نیپالی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں اپنی نگارشات کا سلسلہ قائم رکھا، شعراء و ادبا نے اپنے ذوق شعری و ادبی کی بنیاد پر طرحی وغیر طرحی مشاعروں کا انعقاد کیا جس سےوادی ہمالہ میں اردو کو بحیثیت زبان پنپنے کا تھوڑا سا موقع مل سکا۔  90 کی دہائی میں سفیر پاکستان کے تعاون سے کاٹھمانڈومیں شعبۂ اردو کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ،جس کو تری بھون یونیورسٹی کے وائس چانسلر مہیش کمار اپادھیاے نے منظور کیا پھر نصاب اور دیگر انتظامات کے سلسلے میں دو سال تک بات چیت ہوتی رہے بالآخر سفیر پاکستان کی کوششیں بار آور ہوئیں اور 1985 میں تری بھون یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کا قیام عمل میں آگیا ، اور اسی سال 10 نومبر 1985 کو کراچی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر طاہرنکہت کو اس شعبے کا سربراہ بنایا گیا 1990 ء میں پروفیسر عبدالرؤف صاحب (پاکستان) اس کے سربراہ رہے ان کے بعد یہ شعبہ کب تک چلا اس کا حال معلوم نہیں ہے۔( تفصیل کے لیے دیکھیے ’’نیپال میں اسلام کی تاریخ‘‘۔ مصنفہ مفتی محمد رضا قادری)

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس کے ذریعے ملازمت کا کوئی کوٹہ نہیں رکھا گیا ، رہی بات اردو صحافت کی تو حکومت نیپال کی طرف سے اس کے لیے بھی کسی قابل ذکر کوشش کا نشان نہیں ملتا، جبکہ ہمسایہ ملک ہندوستان سے اس کے قدیم تعلیمی، تجارتی، سفارتی اور سیاسی تعلقات ہمیشہ قائم رہے ،حکومت نیپال کی بے حسی اور لاشعوری کا یہ عالم ہے کہ خلیجی ممالک میں جہاں تقریبا 10 لاکھ سے زیادہ نیپالی شہری کام کر رہے ہیں وہ چاہتی تو نیپال عرب تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اور بہتر سے بہتر روزگار اور تجارتی تعلقات کے مواقع فراہم کرنے کے لیے یہاں کی یونیورسٹیوں میں عربی زبان و ادب اور ثقافت کا شعبہ ضرور قائم کر سکتی تھی، مگر اس سے یہ بھی نہ ہو سکا،یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال لاکھوں مزدوروں کی جماعت نیپال سے عرب ملکوں میں ایکسپورٹ کرتے ہیں، ہم یہاں سے دانشورز، پروفیسرز، تھنکرز ،ہنرمند ،ڈاکٹرزاور انجینیئرز ایکسپورٹ کرنے کے اہل نہیں بن سکے ،یہ وہ اسباب و علل ہیں جو نیپال جیسے انسانی وسائل سے مالامال ملک کو پسماندگی کی طرف لے جاتے ہیں، جب ہم نیپال میں اردو صحافت کا نقطہ ٔ آغاز تلاش کرتے ہیں  تو نیپال میں اردو زبان و ادب کے محقق، اردو ادب کے زلف برہم کی مشاطگی کرنے والے استاد شاعر ڈاکٹر وصی احمد مکرانی کی تحقیق کے مطابق 2028 بکرمی مطابق 1971 کو اس کا نقطۂ آغاز پاتے ہیں، ممکن ہے مزید تحقیق کرنے پر اس کا سرا اور قبل سے جوڑا جا سکے۔

ذیل کی سطور میں ہم نیپال سے جاری ہونے والے اردو رسائل و جرائد کا ایک اجمالی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

(۱)سہ ماہی اصلاح،  نیپال سے شائع ہونے والا یہ اردو زبان کا پہلا رسالہ ہے جو 1971 میں انجمن اصلاح المسلمین کے زیر اہتمام معروف سیاسی مسلم رہنما احمد دین مرحوم سابق ممبر آف پارلیمنٹ کی سربراہی میں جاری ہوا یہ کب تک جاری رہا اس کا صحیح علم نہ ہوسکا ۔

(۲)ماہنامہ نور توحید 1988 مطابق 1408 ہجری میں دارالسلام کر شنا نگر کپل وستو نیپال سےمولانا عبداللہ  مدنی جھنڈا  نگری کی ادارت   میں جاری ہوا ۔

(۳)ہمالہ کی آواز، نیپال میں اردو کا یہ پہلا 15 روزہ اخبار ہے جو 28 ستمبر 1990ء مطابق 12گتے 2047 بکرمی کو منظر عام پر آیا ۔یہ اخبار نیپال کی تنظیم ڈیموکریٹک مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن باغ بازار کاٹھمانڈو کی طرف سے نکالا گیا ،جس کے مدیر ایس ایم پروفیسر حبیب اللہ صاحب تھے ملکی علاقائی اور عالمی  خبروں کے ساتھ اسلامی افکار و  نظریات کی بھی اس میں اشاعت ہوتی تھی۔ یہ  اخبار بھی زیادہ دنوں تک قلت قارئین اور لوگوں کی عد م  دل چسپی کےباعث  زندہ نہ رہ سکا۔

(۴) ماہ نامہ فیض النبی نیپال گنج، یہ رسالہ 1411 ہجری مطابق 1991 کو شیر نیپال مفتی جیش محمد برکاتی کی سرپرستی اور مولانا عبدالجبار منظری کی ادارت میں جاری ہوا ، اور کئی سالوں تک اپنی آن و بان  اور شان کے ساتھ نکلتا رہا ۔یہ رسالہ نیپال میں افکار اہل سنت وجماعت یعنی مسلک اعلی حضرت کا مؤید و ترجمان رہا ،جس میں علامہ بدرالقادری ہالینڈ، مولانا قمربستوی امریکہ ،سکندر علی قادری پاکستان اور مفتی اشرف القادری نیپال جیسے قلم کاروں کے مضامین چھپتے تھے، منظری صاحب کے مدرسہ فیض النبی سے علیحدگی کے بعد یہ  بند ہو گیا۔

(۵) ماہنامہ السراج، جھنڈا نگر کرشنا  نگر، ضلع کپلوستو سے تقریبا آج سے 30 سال قبل جاری ہونے والا جامعہ سراج العلوم السلفیہ کافکری  ترجمان ہے اس کے بانی مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری ،بانی مدرسہ سراج العلوم سلفیہ ہیں، یہ آج بھی جاری ہے۔ دینی و اسلامی نظریات پر جدید اسلوب میں مضامین شائع کرنے والا ایک معیاری رسالہ ہے۔ ابتدائی مدیر کا پتہ نہ چل سکا جبکہ اپریل 2021 کے شمارہ کے مطابق اس کے مدیر مسئول مولانا محمد شمیم احمد ندوی جبکہ معاون مدیر مسعود اختر سلفی ہیں۔

(۶) سہ ماہی پیغام، رسالہ 14 ہجری مطابق 1994 ء میں الحرا ایجوکیشن سوسائٹی کاٹھمانڈوکے زیرے اہتمام جاری ہوا۔

یہ نیپال میں جماعت اسلامی، فلاحی افکار و نظریات کا نمائندہ ہے ،اردو زبان کا یہ ایک معیاری سالہ ہے معلوم نہیں اس وقت جاری ہے یا نہیں اس کے چیف ایڈیٹر محمد حسن فلاحی جبکہ ایڈیٹر محمد عزیز فلاحی مرقوم ہیں۔

(۷) ماہانہ شاہین 1415 ھ میں کاٹھمانڈو سے محمد خالد صدیقی کی ادارت میں شائع ہوا،  یہ زیادہ دنوں تک اپنا وجود قائم نہ رہ سکا۔

(۸)لوک تنتر ،ملنگواں ،سرلاہی سے ہفتہ وار شائع ہوتا تھا، جس میں ایک صفحہ اردو کے لیے مختص تھا، راقم السطور نے بھی اس اخبار کو 2001 میں پڑھا تھا، اس کے اردو پیج کے مدیر اور کالم نگار ڈاکٹر وصی احمد مکرانی تھے، بعد میں اردو صفحہ ختم کر کے مکمل نیپالی میں کر دیا گیا ۔

(۹)ماہ نامہ اسلامی آواز یہ رسالہ 1422 ھ مطابق2000 ء میں دارالعلوم صدیقیہ انوار العلوم،   ضلع کپلوستو سے جاری ہوا،یہ ماہنامہ افکار اہل سنت و جماعت کا ترجمان تھا، اس کے ادارتی بورڈ میں مولانا عبداللہ عارف صدیقی مدیراعلیٰ، مولانا جعفر شمس قادری مدیر، ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم نئی دہلی،مفتی عبدالمبین نعمانی چریاکوٹ، ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی بریلی شریف جیسے لوگ  مجلس ادارت کے ارکان تھے، کئی سالوں تک جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا ۔

(۱۰)صدا ئےعام، ہفت روزہ (اخبار) 2009 میں جامعہ سلفیہ جنک پور سے جاری ہوا،  اس وقت یہ چھ ورقی اخبار ہے جو بند ہونے کے بعد پھر سے جاری ہو گیا ہے، ملک و بیرون ملک کی تازہ ترین صورت حال اور دینی و ادبی معلومات پر مشتمل ہے ۔

(۱۱)اسلام کا ترجمان شش ماہی 'الھادی' اس کا پہلا شمارہ مئی 2014 کو مولانا مبشر حسن مصباحی اور مولانا رضاالحق علیمی علیگ  کی ادارت میں منظر عام پر آیا،اس میں حالات حاضرہ ،مسائل شرعیہ اور اصلاح معاشرہ جیسے موضوعات پر اچھے مضامین شائع ہوتے رہے۔

(۱۲) سہ ماہی سنی پیغام غالبا  1439 ھ 2017ء کو جنک پور نیپال سے فخر ملت فاؤنڈیشن نے شائع کیا، اس کے مدیر اعلیٰ  مولانا عطاء النبی حسینی مصباحی   اور  مدیر مولانا عبدالرحیم ثمر مصباحی ہیں، اب یہ رسالہ  برقی صورت میں چند سالوں سے شائع ہو رہا ہے۔ افکار سنیت اور دینی و عصری موضوعات پر وقیع مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں، اس موضوع پر اطلاعات فراہم کرنے کے لیے راقم السطور   نےدیگر مصادر سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وصی  احمد مکرانی کے مضمون ’’نیپال میں اردو صحافت کا آغاز‘‘ سے بھی استفادہ کیا ہے ،تفصیل کے لیے الہادی کا شمارہ  مئی 2015 کا مطالعہ کریں۔

(۱۳)سہ ماہی ’’ندائے برکات‘‘ یہ مجلہ مارچ ۲۰۱۶ء  میں تلمیذ حضور حافظ ملت ، شیر نیپال مفتی جیش محمد  برکاتی  رحمہ اللہ  کی سرپرستی اور مولانا عبد السلام  امجدی برکاتی کی  ادارت میں لوہنہ ، ضلع دھنوشا سے جاری ہوا ۔ تین سال تک جاری رہنے کے بعد ۲۰۱۹ ء میں بند ہوگیا۔

(۱۴)ششماہی برکات ابدالیہ، یہ میگزین ۱۴۴۱ھ ۲۰۲۰ء میں دیپرا شاہ محلہ ، جنک پور سے مولانا عبد السلام امجدی برکاتی کی ادارت  اور مولانا جمال الدین ابدالی کی ادارت و قیادت میں جاری ہوا ۔ جس میں اہل سنت و جماعت  کے افکار و نظریات  پر ہر سال عمدہ  مضامین  کا مجموعہ شائع کیا جاتا  ہے، ۲۰۲۳ء ۱۴۴۴ھ  اس کا ساتواں شمارہ شائع ہو چکا ہے۔

(۱۵)''ہفت روزہ نیپال اردو ٹائمز ''یہ ہمالیہ کے افق سے ہلال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یکم ربیع النور 1446 ھ مطابق پ۵؍ ستمبر 2024 ءکو طلوع ہونے والا ہفت روزہ برقی اخبار ہے جوراقم سطور کی نگرانی میں     حضرت مولانا عبدالجبار علیمی نیپالی اور مولانا مفتی کلام الدین نعمانی مصباحی کی ادارت میں شائع ہوا ہے، یہ اخبار ہمارے برسوں پر محیط سنہرے خواب کی تعبیر ہے یہ اس اعتبار سے منفردالمثال ہے کہ نیپال میں جماعت اہل سنت کی طرف سے شائع ہونے والا یہ پہلا اردو اخبار ہے ،جب اللہ تعالیٰ  نے خاص توجہ فرمائی، اس فقیر کےدل میں  اردو اخبار نکالنے کا خیال ڈالا اس کے ساتھ ہی ہمارا دماغ برق کی رفتار سا کام کرنے لگا،فورا  اس کی خاکہ بندی کی، ایڈیٹر،سب ایڈیٹر،  کالم نگار، مضمون نگار ان سب کی تلاش کی طرف ذہن دوڑتا رہا، کہتے ہیں کہ جب نیت خالص ہوتی ہے تو اللہ تعالی غیب سے انتظام فرما دیتا ہے ،فورا میرے دماغ میں ایک نام گردش کرنے لگا وہ  دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی  کے قابل فخر فرزند اور میرے عزیز نیپال کے ضلع روپندیہی  سے تعلق رکھنے  محنتی  عالم دین مولاناعبدالجبار علیمی نیپالی   تھے، روپندیہی   ضلع کے ایک دورے میں جناب عبدالرؤف خان صاحب، سابق  ضلعی تعلیمی  آفیسر کے  گھر پر بغرض عیادت ہم اور حضرت سیدغلام حسین مظہری صاحب موجود تھے اتنے میں ایک25 سے30 سال کے درمیان کا متوسط قد نوجوان عالم،  پیشانی پر ہوش مندی کی لکیریں لیے  ملاقات کے لیے حاضر ہوا ،  باتوں باتوں میں ان کی صلاحیتوں کا میں نے اندازہ لگالیا،  پھر کہا اب جب کہ آپ نے ہندوستان کواستعفیٰ سونپ دیا ہے تو اپنے ملک کے لیے کام کیجیے علماء کونسل آپ کی ہر طرح سے خدمت کے لیے تیار ہے مگر یہ بھی منجھے ہوئے کھلاڑی نکلے اتنی جلدی ماننے کو کہاں تیار تھے ،کہا اب بدیس جانے کا ارادہ ہے میں نے خفگی کے لہجے میں  جواب دیا ''تب تو آپ کا یہ پڑھنا لکھنا سب بے کام ہے'' ہمارے سیکڑوں با صلاحیت  علماء کی صلاحیتیں کسب معاش کی خاطر پردیسی زندگی کی نذر ہو چکی ہیں، مجھے خبر ملی کہ علیمی صاحب اردو، عربی، انگریزی کئی زبانوں میں کمپوزنگ اور ایڈیٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ میں اندر سے خوش ہوا جا رہا تھا ،مگر یہ سی مرغ قطر جانے کے لیے پر تول چکا تھا، اب کیا کرتا بہرحال دن گزرتے گئے، اب  جبکہ دفعتاحالات کی سنگینی کےسبب اخبار نکالنے کا خیال آیا تو ان کا نام ذہن میں گردش کرنے لگا، میں نے اسی وقت ان کو فون کیا ،علیک سلیک کے بعد کہا اب آپ کو ایک بڑے کام کے لیے تیار ہونا ہے،اور  کرنا پڑے گا، میں نے اپنا پوراپلان ان کے سامنے رکھ دیا۔

علیمی صاحب !نیپال میں کیا سیاسی، تعلیمی، اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیاں چل رہی ہیں، ہمارے 95 فیصد علماء نہیں جانتے ؛کیونکہ یہ اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتے، وجہ ظاہر ہے نیپالی زبان سے نا بلدہیں۔  امت کا یہ طبقہ جس پر امت مسلمہ کی قیادت، امامت اور سیادت کی ذمہ داری رکھی گئی ہے وہی آج ملکی حالات سےبے خبر ہے، نیز ہر سال ہم لوگ سینکڑوں کی تعداد میں جلسے اور مذہبی و تعلیمی تقریبات منعقد کرتے ہیں جن کی خبریں کسی بھی اخبار یا روزناموں کا حصہ نہیں بنتیں، اس طرح تو ہماری تاریخ ضائع ہو رہی ہے، ہمارے یہاں قلم کاروں کی ایسے بھی قلت ہےپلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے نئے قلم کار نہیں پیدا ہو رہے ہیں، اس لیے اردو اخبار کا نکالنا ہم سب کے حق میں بے حد مفید ہوگا اس کے ذریعے وسیع پیمانے پر افکار اہل سنت، اعلی حضرت امام عشق و محبت امام احمد رضا خان قدس سرہ  کی تعلیمات، افکار و نظریات کی درست اشاعت ہوتی رہے گی باطل افکار و نظریات کا سد باب بھی  ہوتا رہے گا۔

میری باتیں سن کر مولانا علیمی صاحب سراپا حیرت و استعجاب کا   پیکر بن گئے، انہوں نے بہت ہی خوش دلی کے ساتھ ایڈیٹر کاعہدہ  قبول کر لیا، اس کے بعد ضرورت تھی معاون ایڈیٹر کی توبفضلہ تعالی اس کے لیے میری نگاہ انتخاب مدھیس پردیش کے مہوتری ضلع سے تعلق رکھنے  والے ابھرتے ہوئے قلم کار جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ہونہار لائق و فائق فرزند مفتی محمد کلام الدین مصباحی  نعمانی پر جا ٹھہری، یہ بھی ایسے چھپے رستم کہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں کمپوزنگ، ڈیزائننگ اور ایڈیٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان سے رابطہ کیا اور  اپنی پلاننگ سے آگاہ کیاپھر  کہا میں آپ کو اپنے اخبار کا سب ایڈیٹر  منتخب کرتا ہوں ،کیا یہ پیشکش قبول ہے؟ انہوں نے بھی بلا تامل اس عہدے کو قبول کر لیا، بات آگے بڑھی، فردا فردا ہم نے اپنے جاننے والے احباب پر غور کیا کہ ان میں کون لوگ ہیں جو نیپال کی خبروں کواردو میں رپورٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کئی چہرے سامنے آئے ان میں نمایا نام مولانا شفیق رضا ثقافی ، مقیم حال دوحہ قطر ، یہ نیپالی زبان میں تحریر و تقریر کی مہارت رکھتے ہیں  ،ساتھ ہی فکر میں بیداری  ہے۔مولانا بلال برکاتی سنسری  ،مقیم حال دوحہ قطر ،یہ بھی نیپالی خبروں کے حوالے سے بہت سنجیدہ رہتے ہیں، زود نویس اور تفکیری مزاج کے حامل، روشن خیال واقع  ہیں۔مولانا عبدالقیوم سعدی مہوتری کا یہ در نایاب  بھٹنی اسٹیشن یوپی میں خدمت دین کرتے ہوئے نیپالی  خبروں کو رپورٹ کرتے رہتے ہیں ،اسی طرح جھاپہ ضلع سے ہمیں متحرک فعالم دین  مولانا رضوان مصباحی مل گئے،جو وہاں کی خبروں کو رپورٹ کرتے ہیں سیتا مڑی بہار سے ہم نے اپنی رفیق محترم مولانااشفاق احمد مصباحی زید مجدہ کو اخبار کا نمائندہ  منتخب کردیا، اسی طرح لمبنی پردیش سے حضرت مولانا محمد حسن المعروف سراقہ رضوی کو نامہ نگار منتخب کیا گیا، جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں ،اس طر ح سے ہماری ایک متحرک اور فعال ٹیم تیار ہوگئی ۔

علیمی صاحب نے ہمارے بتائے ہوئے خاکے پر کام کرنا شروع کردیا ، سب سے پہلے  تو انہوں نے اخبار کا فارمیٹ تیار کیا جس کو تیار کرنے میں دو سے تین دن لگ گئے ، فارمیٹ تیارکرنا کوئی آسان کام نہیں ہے میرے بھائی ، یہ تو پوری بلڈنگ کا اسٹرکچر تیار کرنا ہے ،اخبار کی خاکہ بندی کے بعد مضامین کی سیٹنگ کا کام چلتا رہا ، جمعرات کو اخبار نکلنا تھا منگل کی رات تک علیمی صاحب نے اخبار کا نوے فیصد کام کردیا تھا کہ بدھ کی شام میں ایک بڑا حادثہ رونما ہوا، ان کی مین سیٹنگ اور اخبار کا پورا فارمیٹ فائنل فائل اوپن کرتے ہوئے مضامین  اڑ گئے، اب تک کے پورے ہفتے کی محنت پہ پانی پھر گیا ،ایڈیٹر صاحب ایک سخت صدمے سے دوچار ہو گئے۔  شعر

اس کے دل سے پوچھیے ناکامیوں کی لذتیں

جو مسافر لٹ گیا ہو جا کے منزل کے قریب

صبح میرے نمبر پہ میسج آیا  کہ پورے اخبار کا مضمون اڑ گیا ہے۔ میں نے تین منٹ کی وائس ریکارڈ کر کے بھیجی جس میں کہا مشہور سائنسداں تھامس الوا ایڈیشن نے جب بلب  ایجاد کیا تھا تو 999 مرتبہ بلب جلانے میں ناکام رہا مگر ہمت نہیں ہاری سویں مرتبہ  میں بلب جل گیا، کسی نے اس سے پوچھا آپ 999 مرتبہ ناکام ہو گئے، تو تھامس نے بہت پیارا جواب دیا، میں ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے 999 ایسے طریقے دریافت کر لیے جن سے بلب نہیں جل سکتا تھا ۔یہ مثال پیش کرتے ہوئے میں نے کہا آپ ناکام نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ طریقہ دریافت کرلیا ہے جس سے فائل تیار نہیں ہو سکتی تھی، اب ہمت سے کام لیں پھر محنت کریں، ابھی علیمی صاحب غور و فکر کے  سمندر میں گم تھے کہ ایک مصباحی شاہین اٹھا اس نے کہا آپ کے پاس جو محفوظ فارمیٹ ہے اس کو بھیجیے باقی  کام کی تکمیل میں کرتا ہوں،وہ شاہین جس کا نام بحیثیت سب ایڈیٹر تاریخ کے پنوں پر ثبت ہو چکا ہے مفتی کلام الدین نعمانی مصباحی  ۔  انہوں نے صبح سے شام تک مسلسل کئی گھنٹے لگا کر دوبارہ مضامین کی سیٹنگ  تیار کر دی، دونوں شاہینوں کی مدد سے ہمارا یہ اخبار وقت مقرر پر نکلنے میں کامیاب ہوا ،کس مضمون کو کہاں رکھنا ہے؟ ہر صفحہ پر خبروں  اور مضامین  کی ترتیب  کیا ہوگی، اس کی نشاندہی فقیر نے کی ، پھر پورے اخبار پر اجمالی نظر ڈال کر اس کی تصحیح کی۔ قارئین کرام ابھی یہ ہماری ٹیم کا نیا تجربہ ہے اس میں کوئی بھی پروفیشنل آدمی نہیں ہے مگر یقین ہے کہ چند مہینوں میں ان کا یہ کام پروفیشنل لوگوں کے کاموں اور ان کے معیار کو چیلنج کرے گا یہ تھی ہلکی سی ایک سرگزشت جو قارئین کی معلومات میں اضافے کی خاطر اور اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے راقم سطور نے سپرد قرطاس کردی  تاکہ آنے والا مورخ جب بھی قلم اٹھائے تو وہ رطب یابس سے پاک ہو کر اعتراف حقیقت کرے اور حقدار کو اس کا حق انصاف سے دے ۔

ایک بات اور بڑی دلچسپ ہے وہ یہ کہ اخبار کی تیاری کو اتنا راز میں رکھا گیا کہ ہمارے علماء کونسل کے کسی بھی بڑے ذمہ دار کو اس کی خبر اس وقت ہوئی جب یہ اخبار منظر عام پر آگیا، اچانک اس کی اشاعت سے   بہت سے لوگوں کے لئے یقین کرنا  مشکل  ہو رہا تھا کہ واقعی نیپال سے اردو  زبان  کا کوئی  سنی اخبار بھی نکل  سکتا ہے!! آخر میں بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس مرد درویش اور قلندر صفت بزرگ کا ذکر نہ کروں جن کی دعائے نیم شبی اور آہ سحرگاہی نے اس خاکسار کو یہ حوصلہ و قوت بخشی یعنی میرے مرشد کریم، مظہر کمالات ،امام ربانی، مجمع الفضائل والبرکات حضور شیخ العالم پیر احمد رضا نقشبندی مجددی کمال پوری دامت برکاتہم العالیہ ،  آپ کا وجود اس  روحانی زوال کے زمانے میں غربا ئےاہل سنت کے اوپر ایک شجر سایہ دار کے مانند ہے،  امام ربانی مجدد الف ثانی کی استقامت اور حضورمفتی اعظم ہندکی کرامت اس دور زوال میں اگر دیکھنی ہو تو آپ کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھی جا سکتی ہے،راقم سطور کا تو یہ اذعان ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی ولایت پر قسم کھا لے تو وہ حانث نہیں ہوگا ،الحمدللہ نیپال اردو ٹائمز کو حضرت کی روحانی سرپرستی اور توجہ حاصل ہے ۔

اس اخبار کی اشاعت کے بعد ملک و بیرون ملک سے علما و مشائخ کے جو گراں  قدر تبصرے اور حوصلہ افزا تاثرات موصول ہوئے وہ ایک مستقل باب کا تقاضا کرتے ہیں آپ  ان کو اسی شمارے میں  ملاحظہ کریں گے۔لیکن ان تاثرات میں دو ایسے تھے جنہوں نے ہمارے ناتواں کاندھوں اور کمزور بازووں میں قوت و توانائی کا جوش بھر دیا ۔ ایک شخصیت کا نام مفکر قوم و ملت، فاضل صدام یونیورسٹی بغداد ، دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی ، ضلع بستی کے سابق پرنسپل ، عربی زبان و ادب کے نابغۂ روزگار ناقد و محقق ، علامہ ڈاکٹر انوار احمد خان البغدادی، پروفیسر بلغاریہ اسلامک اکیڈمی، روس کی ہے۔ اخبار نکلنے کی خبر جب اخبار کے ایڈیٹر مولانا عبد الجبار علیمی نیپالی کے توسط سے ان تک پہونچی ،اخبار پڑھا تو ڈاکٹر صاحب کی بانچھیں کھل گئیں، روس سے فون کیا اور بے پناہ دعاؤں سے نوازا، اور مالی معاونت کی یقین دہائی کروائی ،دوسری شخصیت  کا تعلق مرکز اہل سنت بریلی شریف سے ہے، وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور کے نہایت لائق و فائق فرزند ، معتمد حضور سبحانی میاں ، ایڈیٹر ماہنامہ اعلی حضرت بریلی شریف ، مولانا مفتی محمد سلیم بریلوی دام اقبالہ ہیں، جب ان تک یہ اخبار پہونچا تو ان کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی، فورا ایک مکتوب ہمارے کونسل کے مرکزی صدر حضرت مولانا سید غلام حسین مظہری کے نام لکھا اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے مبلغ اکیس ہزار روپئے انڈین ہفت روزہ اخبار کے لئے پیش فرمایا۔ اگر اس طرح ہمارے مرکز سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اہل سنت میں آج جو علمی و فکری گراوٹ آ گئی ہے اس کا سد باب ہو سکتا ہے۔

ان کے علاوہ  جن علما و مشائخ نے اس اخبار کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کی ان میں جانشین حضور شیخ الاسلام سید محمد حمزہمیاں دام ظلہ العالی، کچھوچھہ شریف،  حضرت مولانا سید محمد جامی اشرف دام ظلہ العالی ، کھمبات، گجرات، حضرت مفتی اعظم بہار مفتی ثناءاللہ خان صاحب سیتامڑھی، بہار، (حضرت نے اپنے نیک خواہشات کا اظہار کے ساتھ خوب دعاؤں سے نوازا)، قاضی نیپال حضرت مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی، جنکپور،   ڈاکٹر محمد افضل مصباحی اسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو بنارس ہند، یونیورسیٹی،  حضرت مولانا برکت علی صاحب پرنسپل  کاملیہ مفتاح العلوم ، مہراج گنج، مفتی اعظم ہالینڈ مفتی شفیق الرحمن علیمی صاحب، مفتی کہف الوری مصباحی ، نیپال گنج، مولانا حسنین رضا برکاتی علیمی، مفتی زاہد رضا منظری نقشبندی، مہوتری، مفتی مجیب قادری لہان، حجاز مقدس، مولانا شہاب الدین حنفی  سمردہی، حجازمقدس، مفتی حسنین رضا مصباحی، پھکولی شریف،  مولانا مظہر حسین علیمی، مولانا ضیاءاللہ بخاری شمسی ، مہوتری، مولانا عبد السلام امجدی برکاتی، قطر، حضرت مولانا نظام الدین قادری ، بانی تحریک پیغام انسانیت، مہراج گنج، حضرت مولانا قاری بشیر القادری گلاب پوری، مولانا محمد فرقان فیضی،، حضرت مولانا الیاس علیمی ، حضرت مولانا محمد رضا علیمی ، مولانا آصف جمیل امجدی صحافی شان سدھارتھ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ بقیہ ہمارے وہ مشائخ اور علمائے کرام جنہوں نے لسانی یا قلمی طور پر ہمارا حوصلہ بڑھایا ، تاثرات پیش فرمائے   ہیں یہ گدائے قادری و نقشبندی سب کا شکریہ ادا کرتا ہے،آئندہ بھی وہ اپنے نیک مشوروں اور دعاؤں سے نوازتے رہیں۔

محمد رضاقادری نقشبندی مصباحی 


Comments