جدید الحاد، اسباب اور سد باب، قسط اول(1) پیش کش : محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی

 




از قلم مفتی محمد رضا مصباحی نقشبندی 

استا ذ جامعہ اشرفیہ مبارکپور 

"    الحاد" یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے انحراف کرنا ، راستے سے ہٹ جانا ،الحاد کو انگریزی میں (Atheism) کہا جاتا ہے جس کا مطلب لا دینیت اورلامذہبیت ہے۔ اصطلاحی معنی میں الحاد اس فکر کا نام ہے جس میں خدا اور مذہب کا کوئی تصور نہ ہو،    نہ مذہب کی بنیاد پروارد ہونے والے جزا وسزا کا تصور ہو۔ یہ انکار خدا کے ہم معنی ہے۔ اس نظریے کے پیروکار کو ملحد ، مادہ پرست اور انگریزی میں (Atheist)  کہتے ہیں۔  ماہرین سماجیات کے الحاد سے متعلق متعدد عالمی  مطالعہ کے جائزے کے مطابق پوری دنیا میں ایک ارب ملحد پائے جاتے ہیں ۔    یہ پوری دنیا کی آبادی کا تقریبا ساڑھے بارہ فیصد بنتا ہے۔

( آزاد دائرۃ المعارف ، ویکیپیڈیا)

 اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ ملحدین کی تعداد چین میں پائی جاتی ہے۔ چینی ملحدین کی تعداد 40؍ کروڑ بتائی جاتی ہے ۔( آزاد دائرۃ المعارف)  اس کے بعد ان ملکوں میں ملحدین بکثرت ہیں جہاں مارکسسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے لوگ زیادہ ہیں جیسے روس۔

          ملحدین کے خیال کے مطابق یہ دنیا کسی خدا نے نہیں بنائی بلکہ از خود وجود میں آگئی اور مختلف شکلوں میں ہمیشہ موجود رہے گی۔ ملحدین صرف ان باتوں پر یقین کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی اور سائنسی وجود ثابت ہو ۔ اعتقادی، وجدانی اور ما فوق الطبیعی چیزوں کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔

الحاد کی تاریخ

 بعض لوگوں کا خیال ہے کہ الحاد ایک نئی فکر اور نئی سوچ ہے جس کا ظہور جدید سائنسی و صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ہوا ہے ۔ بالخصوص چارلس ڈارون(Charles Darwin) کے نظریہ ارتقا کے ظہور کے بعد الحادی فکر دنیا میں عام ہوئی، لیکن یہ کسی صورت درست نہیں۔ الحاد کی تاریخ مذہب کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ الحاد کے اسباب ہر دور میں مختلف رہے ہیں۔ الحاد کے آثار ہندوستان میں ایک ہزار سال قبل مسیح بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ خدا کے وجود پر شک کی عبارتیں ہندوؤں کی مقدس کتاب "رگ وید" میں اس طرح پائی جاتی ہیں: کون یقین سے جانتا ہے ؟  کون اس کا اعلان کرے گا ؟ یہ مخلوقات کب پیدا ہوئیں ؟ خدا اس کائنات و مخلوقات کی خلقت کے بعد پیدا ہوئے اس لیے کون جان سکتا ہے کہ یہ کائنات کہاں سے پیدا ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی ؟(Rav.H the “Hindu speaks” P.27 kastiuri and sons channa India 1999)

تیسری ،چوتھی، پانچویں صدی قبل مسیح دور میں افلاطون ( 327ق،م - 347 ق م)،  ارسطو(381 ق م- 322 ق م) ،سقراط ( 460 ق م - 325 ق م )  اور بقراط( 470 ق م- 399 ق م )  جیسے فلاسفہ اسی مذہب لا ادریہ الحادیہ کے پیروکار گزرے ہیں۔ دور اسلام کی تاریخ میں بھی سینکڑوں لوگ ملحد ہوئے جن میں ابن الراوندی ، ابو عیسی ، وراق اور ابن المقفع کے اسما سر فہرست ہیں ۔ الحاد کوئی نیا ظاہرہ یا نئی فکر نہیں ہے بلکہ مختلف شکلوں میں اور مختلف اسباب کے زیر اثر ہر دور میں موجود رہا ہے۔

 جدید الحاد  (Modern Atheism):

  یہ ایک انگریزی اصطلاح ہے جسے 2006ء میں صحافی گیری وولف نے وضع کی تھی ، اس کا مقصد اکیسویں صدی عیسوی کے ملحدین کے موقف کو پوری دنیا میں عام کرنا تھا۔

    جدید الحاد کا دور سترہویں صدی عیسوی کے اواخر سے شروع ہوتا ہے اور بیسویں صدی کے اختتام تک ایک مضبوط اور مستحکم نظریہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گو یہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تا ہم لا مذہبوں کا بھی ایک مذہب بن چکا ہے۔ قدیم فلاسفہ اپنے مذہب الحادی کی تعبیر کے لیے لا ادریہ کا لفظ استعمال کرتے تھے جو انکار خدا کا ہم معنی تھا اور دور جدید کے منکرین، مادہ پرستی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔   

         فکری اعتبار سے ہم انسان کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک جدید سائنس کے ظہور سے  پہلے کا دور اور دوسرا جدید سائنس کے ظہور کے بعد کا دور ہے۔ دور اول میں مذہب انسان کے لیے رجحان ساز تھا جبکہ دور سائنس میں یہ درجہ جدید سائنس کو حاصل ہو چکا ہے ۔ سائنس من کل الوجوہ نہ مذہب کے موافق ہے نہ مخالف لیکن بعض وجوہ سے ملحدین ،سائنس کو مذہب کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ زیر نظر مقالہ میں ان تمام گوشوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جدید الحاد کے اسباب

            کوئی نئی فکر یوں ہی پروان نہیں چڑھتی بلکہ اس کے پیچھے کچھ عوامل ہوتے ہیں، کچھ محرکات ہوتے ہیں جو انسان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس نظریہ کو قبول کرے اسی طرح الحاد کے فروغ کے بھی کچھ معقول اسباب ہیں ہم  ان میں چند اسباب پہ گفتگو کر رہے ہیں۔

(١)حریت پسندی اور فکری آورگی:

انسانوں کا ایک گروہ ایسا ہردور میں رہا ہے جو اپنے کو کسی بھی مذہبی قانون سے بالاتر رکھنے کا خواہش مند رہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ مذہب یا مذہبی اقدار میں الجھ کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل سے محروم رہے۔  مذہب خواہ کوئی بھی ہو خواہ وہ صحیح ہو یا غلط یہ معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ رہنما اصول اور اخلاقی قدریں ضرور رکھتا ہے۔ ہرمذہب میں کچھ نہ کچھ ایسے رہنما اصول موجود ہیں جو انسان کو برے کاموں سے روکتے ہیں اور اچھے کاموں پر زور دیتے ہیں۔ ملحد اس وجہ سے خدا کا انکار کرتا ہے کہ خدا کو مان کر وہ مذہبی پابندیوں کو اپنے اوپر لازم کر لے گا اس طرح اس کی جنسی اور فکری آوارگی کی تسکین مذہب پسند معاشرہ میں مشکل ہے ،اس لیے وہ  لا مذہبیت کی طرف قدم بڑھاتا ہے کیونکہ جب کسی نیک عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا کا تحقق ہوگا تو لازماً اسے ایک عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔اس دنیا کے علاوہ دوسری دنیا کو بھی ماننا پڑے گا ان تمام جھمیلوں سے بچنے کے لیے آسان راستہ یہی تھا کہ مذہب کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے تاکہ جزا و سزا، حشر و نشراور آخرت کا سوال ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

(٢) مذہب کا عقل انسانی کو مطمئن نہ کرنا :

اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ کے اندر بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی و صنعتی انقلاب آیا جس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر پڑے اس نے سوچ و فکر کا زاویہ بدل دیا۔ انسان کو تخیلات اور تصورات و مفروضات کی دنیا سے نکال کر تجربات و مشاہدات کی راہ پر لا کھڑا کیا ۔قدیم زمانے میں لوگوں نے مظاہر قدرت کو خدا کا درجہ دے دے رکھا، سورج ،چاند، پہاڑ ،دریا اور زمین و آسمان کومقدس مان لیا گیا اور مخلوق کی بجائے خالق کا مقام دے دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں لوگ انہیں مقدس مان کر ان کے سامنے سر خمیدہ رہتے تھے، تاریخ انسانی میں اسلام کے زیر اثر ایسا ہو سکا کہ انہیں خالق اور معبود کے درجے سے ہٹا کر مخلوق کے درجے پر لا کر رکھا گیا اللہ تعالی نے فرمایا:

 وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمۡسَ وَٱلۡقَمَرَ دَآئِبَيۡنِۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيۡلَ وَٱلنَّهَارَ (سورۃ ابراھیم:33)

ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو اور رات و دن کو مسخر کر دیا ہے۔

وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ يَتَفَكَّرُونَ  (سورۃ الجاثیۃ:13)

ترجمہ:اور آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب تمہارے تابع ہے۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

 ان آیات کے نزول کے بعد انسانوں کے اندر ایک شعوری انقلاب آیا، فطرت پرستی کے دور کا خاتمہ ہوا ،قرآنی انقلاب کے زیر اثر مسلمانوں کے اندر سائنسی شعور بیدار ہوا ۔دور اول کا اسلامی انقلاب قرآن اور ایمان کے زیر اثر آیا تھا جس کی وجہ سے لوگ ملحد ہونے سے بچ گئے دوبارہ یہی تاریخ 17ویں صدی سے بیسویں صدی تک  دہرائی گئی اور دنیا پھر ایک بار علمی انقلاب سے دوچار ہوئی مگر اب اس کی پشت پر مذہب نہیں تھا بلکہ مادہ تھا اورمادہ پرستی تھی اس لیے یہ انقالاب خدا پرستی کے بجاے خدا بیزاری کی طرف لے جانے والا ثابت ہوا ­۔ دوبارہ یہ انقلاب صنعت ،حرفت اور سائنس کی شکل میں رونما ہوا جس سے مذاہب عالم متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فطرت اور کائنات کے مختلف حصوں پر آزادانہ ریسرچ و تحقیق کا دور شروع ہوا ۔اس تحقیق کے نتیجے میں سائنس دانوں پر قدرت کے راز ہائے سربستہ کا تھوڑا انکشاف ہوا۔

یہ کائنات جس قانون قدرت کا پابند ہو کر محو سفر ہے اور کائنات میں کس قدر نظم اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس کا تھوڑا علم انھیں (سائنس دانوں) حاصل ہو گیا۔ اس کائناتی تحقیق کے سفر کے دوران سائنس دانوں کے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، اس کائنات میں جس قدر ہم آہنگی اور نظم پایا جا رہا ہے اور جو قوانین طبعیہ اس میں کام کر رہے ہیں، وہ غیر معمولی طور پر انسانی عقل کو حیرت زدہ کرنے والے ہیں، کیا یہ سب خود بخود ہو رہا ہے؟ یا کوئی ہے جو اس کو ایک محکم نظام کے تحت چلا رہا ہے، اس کا جواب سائنسدانوں نے مذہب پرستوں سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔

جب عیسائیت کی طرف دیکھا تو ان کے یہاں تین خداؤں ( Trinity) کا تصور پایا، یہودیت میں دو خداؤں ( Dualism) کا تصور تھا، مجوسیت میں بھی دو خداؤں کا تصور تھا جب بدھ مت کی طرف دیکھا تو یہاں خدا کا تصور ہی مجہول تھا۔ اور جب ہندو مت کی طرف دیکھا تو یہاں لاتعداد خدا کا تصور موجود تھا۔ اب سائنسی و عقلی طور پر یہ ماننا نا ممکن تھا کہ اس کائنات کو تین طاقتیں یا دو قوتیں یا لا تعداد طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں۔ کیوں کہ چند طاقتیں اس نظام کائنات کو کنٹرول کر رہی ہوتیں تو نظام عالم فاسد ہو جاتا، ایک خدا چاہتا کہ سورج کو پورب سے نکالے اور دوسرا چاہتا کہ سورج پچھم سے نکالے۔ لہذا اسلام کے سوا دوسرے مذاہب نے پہلے ہی اسٹیج پر دم توڑ دیا وہ دنیا کو ایک خدا کا صحیح تصور دینے میں ناکام رہے لہذا یہاں سے مذہب بیزاری کا عمل شروع ہوا، سائنسی انقلاب کے زیر اثر یہ تبدیلی آئی کہ دورِ شرک کا خاتمہ ہو گیا۔ اب شرک، پڑھے لکھے لوگوں اور سائنسدانوں کا عقیدہ نہ رہا سائنسی انقلاب کے نتیجے میں دنیا شرک، بت پرستی، گاؤ پرستی اور مظاہر فطرت پرستی سے نکل کر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہوگئی جہاں اسے یہ جواب مل سکے کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا کوئی موجود ہے، اس دنیا کا کوئی تو ڈزائنر ہے کیوں کہ اس قدر خوب صورت ڈزائن کسی ڈزائنر کے بغیر ممکن نہیں مگر فرسودہ مذاہب جو خود شرک کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے تھے، ان مادیت پسندوں کو جواب نہ دے سکے جس کے نتیجے میں انھوں نے خدا کے وجود کا ہی انکار کر دیا اور مذہب سے دوری اختیار کر لی۔

( ۳)حوادث عالم کی مادی توجیہات:

تیسرا اہم سبب جس نے الحادی فکر کو فروغ دیا وہ ہر واقعہ کی مادی توجیہ تلاش کرنا ہے۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہر نتیجے سے پہلے بظاہر اس کی ایک مادی علت  ( material cause) موجود ہوتی ہے مثال کے طور پر جدید سائنس کا بانی آئزک نیوٹن (1727ء-1642ء) اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے سیب کا ایک درخت تھا۔ درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر نیچے آ گرا ، نیوٹن نے سوچا کہ  پھل ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا،وہ اوپر کیوں نہیں چلا گیا؟ آخر کار اس نے دریافت کیا کہ ہماری زمین میں قوت کشش ( gravitational pull) ہے اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے آتی ہیں ۔یہ مطالعہ آگے بڑھا یہاں تک کہ سائنس دانوں نے دریافت کیاکہ اس دنیا میں جو واقعات و حادثات پیش آتے ہیں ان سب کے پیچھے ہمیشہ ایک سبب (cause) ہوتا ہے ہر نتیجہ کسی نہ کسی سبب کے تحت ظہور میں آتا ہے پہلے کہیں زلزلہ آتا تھا تو لوگ اسے خدا کی طرف پھیر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالی کی قدرت کانتیجہ ہے ،ہارٹ اٹیک ہو یا کوئی حادثہ پیش آجاے تو اس کی توجیہ مذہب اور خدا کے حوالے سے کی جاتی تھی۔ اب جدید سائنس کے ظہور کے بعد واقعات کی توجیہ کے لیے خدا کے بجائے سبب کا حوالہ دیا جانے لگا ،  سائنس کی یہ دریافت ابتدائی طور پر صرف ایک طبیعی مفہوم رکھتی تھی خدا کے حوالے سے واقعات کی توجیہ نہ کرنے کے باوجود وہ خدا کے انکار کے ہم معنی نہ تھی مگر ملحد مفکرین نے نظریاتی ہائی جیک ( hijack) کے ذریعے اس کو خدا سے انکار کے ہم معنی بنا دیا یہیں سے وہ نظریہ شروع ہوا جس کو جدید الحاد (modern  atheism ) کہا جاتا ہے۔

(4)جدید  مادہ پرستی   (Modern Materialism)

میٹیریل ازم ایک فلسفہ بھی ہے اور ایک کلچر بھی۔ مادہ پرستی کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی آرزؤں کی تکمیل اور جنت کے حصول کے لیے اب اس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ اگلی دنیا(آخرت) برپا ہو   اور وہاں خدا اپنی خصوصی عنایت کے طور  پر جنت عطا کرے ۔ اب ہم کو وہ سب معلوم ہوگیا ہے جس کے ذریعے اس دنیا  میں جنت کی تعمیر ممکن ہے ۔ جدید  ٹکنالوجی کی بدولت یہ سب ممکن ہے ۔چنانچہ جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس جنت ارضی کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو چکاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری۔۔۔۔

پیش کش :

محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی


Comments