فتنۂ
ارتداد کی لہر:ایمان کی آزمائش اور امت کی ذمہ داری
از: محمد
شمیم احمد نوری مصباحی
خادم:دارالعلوم
انوارِ مصطفیٰ
سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)
یہ دور
بےشک فتنوں کا دور ہے۔
کبھی
عقیدے پر حملہ ہے، کبھی کردار پر؛
کبھی تہذیب کے نام پر ایمان کو زہر دیا جا رہا ہے،تو کبھی "آزادیِ فکر" کے خوش نما نعروں میں روحِ اسلام کو قید کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔آج اُمتِ مسلمہ کا سب سے بڑا بحران صرف سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ ایمانی و اعتقادی بحران ہے۔یہ وہ فتنہ ہے جو انسان کے دل سے محبتِ رسول ﷺ کا چراغ بجھانے اور ایمان کی حرارت سرد کرنے کے لیے نفسیاتی، تہذیبی اور فکری محاذ پر سرگرم ہے۔یہ وہی فتنۂ ارتداد ہےجو کبھی کھلے کفر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو کبھی “روشن خیالی”، “ترقی” یا “انسانی مساوات” کے فریب میں لپٹا نظر آتا ہے۔یہ فتنہ صرف عقیدے کو نہیں، شناخت، نسل، تہذیب اور ضمیر سب کو نگلنے پر تُلا ہوا ہے۔ایمان،انسان کی سب سے قیمتی متاع:ایمان وہ جوہر ہے جس کے بغیر کوئی عمل، کوئی عبادت، کوئی قربانی مقبول نہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:"وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ" (آل عمران: 85) "جو شخص اسلام کے سوا کوئی دین چاہے، اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارے میں رہے گا۔" مگر افسوس!آج وہی ایمان جس پر امت کی بنیاد تھی، دنیا پرستی، فکری زہر، اور تہذیبی غلامی کے طوفان میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں لالچ کے دام میں عقیدہ بیچا جا رہاہے،کہیں محبت کے جھانسے میں ایمان گنوایا جا رہا ہے اور کہیں غفلت و بےحسی نے نسلوں کو ایمان سے غافل کر دیا ہے۔
فتنۂ
ارتداد کے بنیادی اسباب، ایک تجزیاتی مطالعہ: فتنہ کبھی اچانک نہیں اُبھرتا۔
یہ تب
جنم لیتا ہے جب دلوں سے ایمان کی حرارت اور معاشرے سے دینی شعور مٹنے لگتا ہے۔
آئیے
ان اسباب پر فکری نظر ڈالیں:
1. علمِ دین سے غفلت اور فکری ناتوانی:
یہ دور
علم و ٹیکنالوجی کا ہے مگر علمِ دین سے جہالت کا بھی دور ہے۔
مسلمان
نوجوان آج دنیاوی تعلیم میں کچھ حد تک ماہر مگر عقائدِ اسلام سے بےخبر ہیں۔
جب ایمان
کا شعور کمزور ہوتا ہے، تو معمولی اعتراض بھی دل میں شک پیدا کر دیتا ہے۔
یہی شک
رفتہ رفتہ ایمان کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔
قرآن و
سنت سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد انسان،
“منطق” کے نام پر ملحدین اور فتنہ گر
دانشوروں کا اسیر بن جاتا ہے۔
2. فکری
ارتداد اور آزادیِ فکر کے نام پر گمراہی:آج “اپنی رائے”، “ذاتی انتخاب” اور “سوچنے
کی آزادی” کے نعروں کے زیرِ سایہایمان کو شک، بدگمانی اور بغاوت کے دہانے تک پہنچایا
جا رہا ہے۔بے لگام سوشل میڈیا نے ایک پوری نسل کو قرآن و سنت کے بجائے یوٹیوب
اسکالرز اور گمراہ بلاگرز کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔یہ فکری زہر بظاہر علمی دکھائی
دیتا ہے مگر درحقیقت یہ الحاد، انکارِ وحی اور ترکِ سنت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
3. تہذیبی غلامی اور مغربی کلچر کا اثر:
یہ بھی
ایک خاموش ارتداد ہے۔لباس، زبان،
آج
بےپردگی کو فخر سمجھا جا رہا ہے،اسلامی پردے کو دقیانوسی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ “تہذیبی
ارتداد” ہے جس نے شرم و حیاء کے قلعے منہدم کر دیے۔جب حیاء جاتی ہے، تو ایمان کا
ستون بھی گر جاتا ہے۔
4. نکاحِ غیر شرعی اور فریبِ محبت: یہ
فتنہ سب سے خطرناک ہے۔ “محبت” اور “برابری” کے نام پر نوجوان لڑکیاں اپنے ایمان کی
قیمت پر رشتے بنا رہی ہیں۔
اس سے
صرف ایک فرد کا ایمان نہیں جاتا بلکہ ایک نسل کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ایک
مسلمان بیٹی کا ارتداد، ایک خاندان کی روحانی موت کے مترادف ہے۔
5. سوشل میڈیا کا زہریلا جال:
اسمارٹ
فون اور نیٹ ورک کی دنیا نےجہاں علم کے دروازے کھولے، وہیں گمراہی کے طوفان بھی پیدا
کیے۔ایمان کے نام پر طنز، دین کے احکام پر مزاح،اور مذہبی اقدار کو دقیانوسی بتانا
یہ آج کی “ڈیجیٹل بغاوت ہے۔
افسوس!
ہمارے گھروں کے اندر وہ آلات موجود ہیں جو روزانہ نسلوں کے ایمان کو نگل رہے ہیں۔
6.غربت،معاشی
دباؤاورسماجی مجبوری
کئی
کمزور طبقے، تعلیم یا نوکری کے لالچ میں، غیر اسلامی ماحول میں رہ کر اپنے ایمان
سے محروم ہو جاتے ہیں۔ایمان کی کمزوری جب دنیا کے لالچ سے ملتی ہےتو عقیدہ سودا بن
جاتا ہے۔
قرآن کی
تنبیہ:"وَمَنْ
یَرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ
اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ"
فتنۂ
ارتداد کی لہر کو روکنے کے لیے ایمان کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔یہ کام صرف وعظ یا
تقریر سے نہیں بلکہ تعلیم، تربیت، صحبت، میڈیا، اور خاندانی نظام سب کی اصلاح سے
ممکن ہے۔
آئیے
ان تدابیر پر تفصیل سے نظر ڈالیں:
1. دینی تعلیم و تربیت کا فروغ:
یہ سب
سے پہلی اور بنیادی دیوارِ تحفظ ہے۔
گھروں
میں قرآن، عقائد، اور سیرتِ نبی ﷺ کی تعلیم کو لازم کیا جائے۔
مدارس
و مکاتب کے نظام کو مضبوط بنایا جائے،اور اسکولی نظام میں دینی نصاب شامل کیا
جائے۔ہر بچہ قرآن و ایمان کے ساتھ پروان چڑھے-یہی ارتداد کے فتنوں کے خلاف پہلا
قلعہ ہے۔
2. ماں
کی دینی تربیت اور کردار:
ماں
اگر دین دار ہو تو نسلیں محفوظ رہتی ہیں۔
یہ ماں
ہی ہے جو گود میں عقیدہ پروان چڑھاتی ہے،اور ایمان کا نور دل میں بٹھاتی ہے۔
اس لیے
خواتین کی اصلاحی تعلیم، دروسِ قرآن،اور اخلاقی بیداری مہمات کو عام کیا جائے۔
3. میڈیا
اور ڈیجیٹل دنیا کا مثبت استعمال:
سوشل میڈیا سے فرار نہیں، بلکہ اسے ایمان کی حفاظت کے لیے ہتھیار بنایا جائے۔اسلامی ویڈیوز، دینی بیانات، سیرت پر مبنی پروگراماور فکری رہنمائی کے پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کے آن لائن استعمال پر نظر رکھیں،کیونکہ ایک غلط ویڈیو پوری سوچ بدل سکتی ہے۔
4. صالح صحبت اور دینی ماحول:
بری
صحبت ایمان کا زہر ہے، اور نیک صحبت ایمان کی غذا۔نوجوانوں کو علمائے ربانیین،
صلحائے ملت اور اہلِ دل بزرگوں کی مجلسوں سے جوڑا جائے۔خانقاہوں، مساجد، اور درسِ
قرآن کی محفلیں دلوں میں ایمان کی گرمی کو زندہ رکھتی ہیں۔
5. نکاح میں مذہبی احتیاط اور سماجی بیداری:
رشتہ
داری میں ایمان اور کردار کو اصل معیار بنایا جائے،نہ کہ مال، عہدہ یا حسن۔ والدین
کو سمجھنا ہوگا کہ ایمان کا تحفظ مال و دنیا کی چمک سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔علماء
و ادارے اور مسلم تنظیمیں اس ضمن میںمسلم معاشرتی بیداری مہمات چلائیں۔
6. علماء و مشائخ کی اصلاحی قیادت:
ائمہ و
خطباء اپنے خطبات و بیانات میں ایمان کی حفاظت، ارتداد کے خطرات اور عقیدۂ اہلِ
سنت کی بنیادوں کو موضوع بنائیں۔خانقاہوں اور دینی اداروں کوایمانِ عامہ کی بیداری
کے مراکز بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نوجوانوں
کے نام ایک پیغامِ ایمان:
اے
مسلم نوجوان!تمہاری پہچان تمہارے لباس، زبان یا ڈگری سے نہیں بلکہ تمہاری اصل
پہچان کلمہ "لا إله إلا الله محمد رسول الله ﷺ" ہے۔ اپنے عقیدے کی حفاظت
کو زندگی کا مقصد بنا لو۔قرآن وسنت سے رشتہ جوڑو،علمائے کرام کی صحبت میں رہو اور
اپنی آنکھوں، زبان اور دل کوایمان کی امانت سمجھو۔بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ
اللہ وحدہ لاشریک ہمیں اور ہماری نسلوں اور جملہ مسلمانوں کو ایمان پر استقامت عطا
فرمائے اور فتنۂ ارتداد کے ہر وار سے محفوظ رکھے
اور
ہمارے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ، غیرتِ ایمانی
اور علمِ دین کی روشنی ہمیشہ زندہ رکھے-
آمین یا
رب العالمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
Comments
Post a Comment