سوڈان کے حاليه فسادات كاذمه دار كون؟ ازقلم: نور محمد خالد مصباحی ازہری مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال +977 981-1190536

سوڈان کے حاليه فسادات كاذمه دار كون؟



حالیہ دنوں عالمی میڈیا نے اچانک سوڈان کے مسئلے کو نمایاں کر دیا، ابھی تک ساری دنیا کی توجہ فلسطین و غزہ کی تباہی اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی امداد پر مرکوز تھی، لیکن جیسے ہی غزہ کی تعمیرِ نو اور امداد کا وقت آیا، میڈیا نے رخ بدل کر سوڈان کی خانہ جنگی کو موضوعِ بحث بنا دیا۔ یہ دراصل ایک منظم منصوبہ ہے جس کا مقصد مسلم عوام کی توجہ اصل محاذ (فلسطین) سے ہٹاکر سوڈان کی طرف کرنا ہے، آخر ابھی تک یہ عالمی میڈیا کہاں سوئی ہوئی تھی؟ چونکہ وہ غریب لوگ ہیں اور اس دور میں غريبوں کے جانوں کی اہل مغرب کے یہاں کوئی اہمیت نہیں، اگر امریکہ و یورپ کاکوئی ایک  آدمی  بے قصور یا باقصور قتل کر دیا جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیں گے یہ ہے انسانیت کا دہرا معیار، اور چلے ہیں دنیا کی قیادت کرنے۔

اب چلئے سوڈان کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کر لیتے ہیں کہ سوڈان كا جغرافيائی محل وقوع کیا ہے؟ تو سوڈان شمالی افریقہ کا قدرتی معدنیات خاص طور سے سونے کے ذخائر اور تیل کی دولت سے  مالا مال  بر اعظم افریقہ کا سب سے بڑا ایک  اسلامی ملک ہے جس کے شمال میں جمہوریہ مصر ، جنوب و مشرق ميں عاشق رسول حضرت بلال حبشي كا آبائی وطن  ايتھوپیا ہے (جسے زمانہ قدیم میں حبشہ بھی  کہا جاتا تھا، یہی وہ حبشہ ہے جہاں کے نجاشی بادشاہ اصمعہ نے اسلام کے اولین  مہاجرین کو اپنے یہاں  پناہ دی اور حضرت جعفر طيار کی طرف سے

بادشاہ نجاشی کے دور میں مکالمہ پیش آیا )۔ اس کے  شمال و مغرب ميں ليبيا(Libiya( و چاد (Chad

 سوڈان کی مختصر سیاسی صورتحال۔

سوڈان طویل عرصے تک برطانوی سامراج کے زیرِ اثر رہا۔ آزادی کے بعد یہ ملک بار بار فوجی بغاوتوں اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ 1979 تک وہاں نسبتاً ایک مستحکم حکومت قائم تھی، مگر 1989 میں کرنل عمر البشیر نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری حکومت (جس کے سربراہ صادق المہدی تھے) کا  عمر البشیر  نے تختہ الٹ دیا۔  پھر 2019 عیسوی تک  عمر البشیر  سوڈان کے صدر رہے  جن دونوں  جنرلون نے تختہ پلٹوانے  میں  انکی مدد کی تھی ان میں سے  ایک سوڈان کے اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل عبدالفتاح البرھان جنکی آرمی کا نام سودان آرمی ہے اور یہی اصولی طور پر وہاں کے قانونی حكمران ہیں اور دنیا کے تما ممالک انہیں کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔

  اور دوسرے سوڈان کے ایک غريب گھرانے سے تعلق رکھنے والے جنرل حميدی ہیں  جن کی آرمی کانام الدعو ة السريعة ہے۔ جو اخوانیت سے متاثر ہیں اور باغي گروپ ہیں، سوڈانی عوام ان کو تسلیم نہیں کرتی ہے ان دونوں جنرلوں  نے 2019 ميں  صدر عمر البشير كا تخت پلٹ کرکے جنرل ابوالفتاح البرھان کو ملک کا رہنما بنا دیا پھر ان دونوں جنرلوں میں اختلاف ہو گیا  آخر کار اپریل 2023 عيسوي ميں یہ اختلاف اپنے عروج پر پہنچ گیا ملک میں خانہ جنگی کا ماحول قائم ہو گیا، چنانچہ ملک کی راجدھانی خرطوم پر عبدالفتاح البرھان کی حكومت سوڈانی آرمی کے زیر قیادت قائم ہو گئی  اور ملک کے مغربي صوبے دار فور  پر جس کی راجدھانی فاشر  اس پرباغي گروپ الدعوة السريعة كی حكومت قائم ہوگئی ۔

 چنانچہ دو سانڈوں  کی لڑائی میں سوڈان کے بے قصور نہتے مسلمان ظلم وبربریت کے شكار ہوگئے  اور لاکھوں مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ یہود ونصاری کے بہکاوے میں آکر آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔

چنانچہ یہاں بھی وہی معاملہ ہے، متحده عرب امارات كے صدر محمد بن زايد ال نهيان نے  باغي گروپ  جنرل حميدي کو مالی تعاون اس لئے کیا  تاکہ سونے کی دولت سے مالا مال مغربي سوڈان کے علاقے  دار فور سے باغيوں كي مدد سے سونا غیر  قانوني طور پر اسمگلنگ کر کر دبئی منتقل کیا جا سکے، چنانچہ متحده عرب

امارات ہر سال سيكڑوں ٹن سونا سوڈان سے دبئی  لاتی ہے، اور پورے دنیا میں فروخت کرتی ہے، اللہ کی لعنت ہو ایسے مسلم حكمرانوں پر جو اپنے  ذاتی مفاد کے خاطر افریقہ کے غريب مسلمانوں کا خون بہانے میں باغيوں كي مدد کرتے ہیں،  اور اس بغاوت ميں مصر کے اخوان المسلمین کا بھی ہاتھ ہے۔

 چنانچہ ماضی میں  صادق المہدی کے خلاف بغاوت کے فکری رہنما اخوان المسلمین کے نظریاتی اسکالر ڈاکٹر حسن الترابی تھے، جنہوں نے اپنے دور  میں  حکومت کے خلاف بغاوت كو  "اسلامی انقلاب" کا نام دیا۔ مگر عملاً اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔

ملک میں خانہ جنگی، علیحدگی پسندی، اور ظلم و جبر بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ  اس لڑائی کے نتیجے میں جنوبی سوڈان کے عیسائیوں نے بغاوت کر دیا اور  2011  عیسوی میں جنوبی سوڈان کے نام سے 7لاکھ مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہو ا دنیا کے نقشہ میں ایک اور ملک وجود میں آگیا، اب پھر دشمنان اسلام سوڈان جو 18 لاکھ مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہوا  افریقہ کا ایک بڑا اسلامی ملک ہے اسے تین حصوں ميں تقسیم کر نا چاہتے ہیں۔

1  مشرقي سوڈان

2۔وسطی سوڈان

 3 مغربي سوڈان

تاکہ اپنے مقصد کا حكمران مقرر کرکے وہاں                              کی معدنیات اور تیل کے ذخائر پر بالواسطہقبضہ کر لیا جائے۔ سوڈان میں ابھی یہی ہو رہا ہے اس میں براہ راست  امریکہ، اسرائیل اور متحده امارات ملوث ہیں اور کسی نا کسی طرح اخوان المسلمین بھی ملوث ہے، کیونکہ یہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے خاص نظریہ خلافت کے ماتحت اكثر  اسلامي ممالك كو غير اسلامي  بول کر وہاں کے حكمران كي  مخالفت کرتے  رہتے ہیں اور سوڈان میں یہی ہورہا کئی عناصر ملکر سوڈان کو برباد کر رہے ہیں۔

اخوان المسلمین کا پس منظر

اخوان المسلمین کی بنیاد 1928 میں مصر میں حسن البنا نے رکھی۔ ابتدا میں اس کا مقصد اسلامی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ تھا، مگر وقت کے ساتھ یہ تحریک سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں بدل گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اخوان المسلمین کی قیادت اور سرگرم اراکین برطانیہ میں بڑی آزادی سے کام کرتے ہیں۔ لندن میں ان کا غیر رسمی ہیڈ کوارٹر موجود ہے، جہاں انہیں مالی اور فکری مدد فراہم کی جاتی ہے۔ مغرب ان تحریکوں کو دراصل “اسلام کے اندر سے اسلام کے خلاف” استعمال کرتا ہے تاکہ امتِ مسلمہ کو فرقہ واریت اور خانہ جنگی میں الجھا کر کمزور کر سکیں۔

ازقلم: نور محمد خالد مصباحی ازہری

مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال

+977 981-1190536

 



Comments