خطیب
البراہین صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ کی دینی و علمی خدمات
(حافظ)افتخار احمد قادری
زمانہ حال میں جب دین و ایمان کی قدریں ماند پڑ
رہی تھیں اور دنیا پرستی کے سیلاب میں اخلاص و عمل کے چراغ بجھتے جا رہے تھے ایسے
وقت میں کچھ پاکیزہ نفوس ایسے بھی جلوہ افروز ہوئے جنہوں نے اپنی علمی و روحانی
روشنی سے معاشرے کے اندھیروں کو منور کیا۔ انہی ربانی ہستیوں میں ایک تابناک نام
حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ کا ہے جنہیں اہلِ علم و اہلِ دل ”خطیب
البراہین“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک دینی گھرانے سے تھا جس کی فضا میں
علم و معرفت، زہد و تقویٰ اور عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو رچی بسی تھی۔ بچپن ہی سے آپ کے
چہرے سے علم و عمل کے آثار جھلکنے لگے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے
معروف علما سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے برصغیر کے ممتاز دینی
مراکز کا رخ کیا۔ قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر، عقائد و منطق کے ساتھ ساتھ سلوک و
تصوف میں بھی آپ نے کمال حاصل کیا۔ آپ کو اپنے اساتذہ کرام سے ظاہری و باطنی علوم
کی ایسی برکتیں حاصل ہوئیں جنہوں نے آپ کو ایک کامل عالمِ ربانی بنا دیا۔
حضرت صوفی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ کو الله تعالیٰ نے حسنِ بیان، قوتِ
استدلال
جب آپ نے اس دنیا سے رخصت فرمائی تو علم و عرفان کا ایک آفتاب غروب ہوا لیکن آپ کے شاگرد آپ کے ملفوظات، آپ کی تصنیفات اور آپ کی قائم کردہ علمی و روحانی تحریکیں آج بھی آپ کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اہلِ محبتآج بھی آپ کے مزارِ پرانوار پر حاضری دے کر علم و عرفان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کی حیاتِ مبارکہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر نیت خالص ہو، مقصد رضائے الٰہی ہو اور دل میں عشقِ مصطفی ﷺ کی حرارت ہو تو انسان ایک معمولی ذرہ ہوتے ہوئے بھی علم و عمل کا آفتاب بن سکتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی دینِ متین کی خدمت، عشقِ رسول ﷺ کی ترویج
و اشاعت اور امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لیے وقف تھی۔ آپ نے اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ دین کی خدمت صرف منبر و محراب تک محدود نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی اس کی ترجمان بن جانی چاہیے۔ آپ کے دل میں امتِ مصطفیﷺ کا درد، اخلاص و ایثار کا جذبہ اور دین کے غلبے کی تڑپ ہر وقت موجزن رہتی تھی۔ آپ نے جس خلوص کے ساتھ اپنے فرائضِ دینیہ انجام دیے اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ آپ کے نزدیک دین کا کام محض وعظ و نصیحت کا نہیں بلکہ عمل و اخلاق کا مظہر تھا۔ جب آپ نے اس فانی دنیا کو الوداع کہا تو ایک ایسا چراغ بجھا جس کی روشنی نے ہزاروں دلوں کو منور کیا تھا۔ آپ کی رحلت سے علم و عرفان کا آفتاب ضرور غروب ہوا مگر آپ کی تعلیمات آپ کے شاگردان رشید اور آپ کی علمی و روحانی مجالس آج بھی اس آفتاب کی کرنوں کی مانند اہلِ ایمان کے دلوں کو روشن کیے ہوئے ہیں۔
آپ کے
مزارِ اقدس پر جب کوئی اہلِ محبت حاضری دیتا ہے تو اسے صرف ایک قبر نہیں بلکہ علم
و عرفان، ذکر و فکر اور عشقِ الٰہی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی سے
ہمیں یہ سبق دیا کہ اگر انسان کی نیت خالص ہو، دل میں عشقِ مصطفی ﷺ کی حرارت ہو،
اور مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو تو وہ وقت و حالات کی تنگیوں کے باوجود علم و عمل
کا مینارِ نور بن سکتا ہے۔ آپ نے یہ باور کرایا کہ دنیا کی اصل کامیابی شہرت یا
دولت میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ بندہ اپنے رب کو راضی کر لے اور نبی کریم ﷺ کی
سنتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔
آج جب آپ علیہ الرحمہ کے تذکرے کو پڑھتے یا
سنتے ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ یہ وہ
*کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اترپردیش
خصوصی
پیش کش نیپال اردو ٹائمز
Comments
Post a Comment