خطیب البراہین واقعات کی روشنی میں: مولانا محمد طاہرالقادری نظامی مصباحی :شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت غوثیہ نظامیہ حسنی

نیپال اردو ٹائمز NEPAL URDU TIMES (साप्ताहिक नेपाल उर्दू टाइम्स)

خطیب البراہین واقعات کی روشنی میں

مولانا محمد طاہرالقادری نظامی مصباحی :شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت غوثیہ نظامیہ حسنی

 


محی السنہ تاج الاصفیاءخطیب البراہین حضرت علامہ الحاج الشاہ صوفی مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی  نوراللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھاسنت کبیر نگر یوپی کاعرس مبارک آنے والے 23اکتوبر 2025کو نہایت ہی تزک احتشام کے ساتھ خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نظامیہ اگیاشریف سنت کبیر نگر میں منایا جاۓ گا پورے ملک سے عقیدت مندان حضور خطیب البراہین ان کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے کشاں کشاں آتے ہیں اور اپنے دامن مراد کو بھر کر واپس جاتے ہیں انہیں کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے چند سطر حاضر خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں

حضور خطیب البراہین اور احترام سادات

ابھی گزشتہ مہینے میں نیپال میں ایک پرو گرام میں جانا ہوا عاشق حضور خطیب البراہینحضرت علامہ مولانامحمد قاسم برہانی صاحب قبلہ نچلول خلیفہ حضور حبیب العلماء ساتھ تھے انہوں نے بتایاکہ اس آبادی میں حضور خطیب البراہین کا کئی مرتبہ آنا ہواہے،ایک مرتبہ حضور خطیب البراہین اس آبادی میں آۓہوۓتھے کثیر تعداد میں علماء مشائخ کی آمد ہوئی تھی پروگرام ختم ہوالوگ داخل سلسلہ ہوئے گرمی کا مہینہ تھا اس لیے تمام علماء کرام کا بستر  باہر ہی لگا دیاگیا تھا انھیں حضرات کے بغل میں تھوڑی دوری پر حضور خطیب البراہین کابھی بسترہ لگا دیا گیا اور حضرت کو آرام کرنے کےلیے لٹا دیا گیا حضرت ابھی بستر پر لیٹے ہی تھے کہ اٹھ کر بیٹھ گیے سب لوگوں نے ہر چند کوشش کی کہ حضرت لیٹ جائیں مگر حضرت نہیں لیٹے بستر پر بیٹھے ہی رہے میں بہت فکر مند تھا کہ حضرت آرام کیوں نہیں کر رہے ہیں اچانک میری نگاہ تھوڑی دوری پر لگی ہوئی ایک چار پائی پر پڑی اس پر ایک آل رسول آرام فرمارہے تھےوہ چارپائی حضرت کے پائتین جانب پڑ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ حضرت اسی لیے نہیں لیٹ رہے ہیں میں نے انتظامیہ سے کہہ کرحضرت کی چارپائی دوسری جگہ لگوائی جب دوسری جگہ چارپائی لگ گئی حضرت کو اس پر آرام کرنے کےلیے کھا گیا تو حضرت آرام سے اس پر لیٹ گیے اور آرام کرنے لگے

سرکاران مارہرہ کا احترام

حضور خطیب البراہین ہر سال عرس قاسمی کے موقع پر مارہرہ مقدسہ نہایت ہی پابندی کے ساتھ حاضری دیا کرتے تھے اور ہر سال آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی مگر حضرت کبھی خانقاہ میں نہیں ٹھرے بلکہ حضرت مسجد کے ایک گوشے میں رک جاتے تھے اپنا وقت اوراد وظائف گزارتے جب تقریر کرنے کا وقت ہوتاتو تشریف لے جاتے سادات کرام بیٹھے رہتے آپ کےلیے کرسی لگائی جاتی آپ تقریر کرتے تقریرکے بعدہ باادب ایک کنارے بیٹھ جاتے تھوڑی دیر اسٹیج پر رہتے اس کے بعد سادات کرام سے اجازت لے کر حضرت پھر اسے مسجد میں چلے جاتے

 حضور خطیب البراہین کی شان اشتغناء

*عصر حاضر کے خطیبوں کےلیے نمونہ عمل*

دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھا سنت کبیر نگر میں جب آپ کی سروس ختم ہوگئی اور آپ گورنمنٹ کے کاغذ میں ریٹائر ہوگیے تو ادارے کے ارباب حل وعقد سے حضور خطیب البراہین کی بارگاہ میں درخواست کی حضور آپ حسب سابق ادارے کی خدمت کرتے رہیں انشاءاللہ تعالیٰ انتظامیہ کمیٹی آپ کی خدمت کرتے رہے گی آپ نے ادارے کی خدمت کرنے کی درخواست تو قبول کرلی اور 2008تک ادارے کیخدمت کرتے رہے مگر اہل کمیٹی  سے کبھی ایک روپیے کامطالبہ نہ کیا انتظامیہ کمیٹی نے کچھ مشاہرہ طے کرکے دیناچاہامگر آپ نے صاف انکار کردیا اس طرح تقریبا دودوہائیوں تک آپ ادارے کی خدمت کرتے رہے اور فی سبیل اللہ درس بخاری دیتے رہے

 لگژری گاڑی لینے سے انکار کردیا

2000عیسوی کے اس پاس کی بات ہے ایک سیٹھ صاحب ایک مرتبہ دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھاسنت کبیر نگر آپ کی خدمت میں میں پہونچے اور آپ سے عرض کرنے لگےحضور اب آپ کی عمر دوسری ہوگئی ہے ہر روز دور دراز کا پروگرام آپ کرتے ہیں لوگ طرح طرح کی گاڑی سے آپ  کو لےکر جاتے ہیں آپ کو سفر میں بہت تکلیف ہوتی ہوگی حضور اگر آپ اجازت دیں تو ایک بات عرض کروں حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہیے سیٹھ صاحب اپنی نئی ٹاٹا سفاری گاڑی کی چابھی سامنے رکھتے ہوئے عرض کیا یہ میری نئی لگژری کار کی چابھی ہے اسے قبول فرمائیں میری خواہش ہے کہ آج کے بعد آپ اسی گاڑی سے چلیں آپ کو سفر کرنے میں آسانی ہوگی  حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا حاجی صاحب آپ اپنی گاڑی اپنے پاس رکھیں فقیر کو اکثر مریدین ہی پروگرام میں بلاتے ہیں وہ جس طرح بھی لے جائیں گے فقیر تاحیات خدمت دین متین کرتا رہے گا ہمیں اس گاڑی کی ضرورت نہیں ہے یہ کہا اور چابھی واپس سیٹھ صاحب کے ہاتھ میں پکڑادیا

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Comments