نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا : ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی سابق پروفیسر شعبہ عمرانیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
نظام
مہر کی صورت نظام ہے تیرا
ڈاکٹر
شجاع الدین فاروقی
سابق
پروفیسر شعبہ عمرانیات
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
اشرف
المخلوقات ہونے کے باوجود انسان ضعیف البیان واقع ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اس
کی تخلق کے ساتھ ہی اس کی رہنمائی اور رشد وہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام
کا ایک طویل سلسلہ قائم کیا اور انھیں ہر قوم اور ہر ملک وعلاقے کے لیے حسب ضرورت
مبعوث فرمایا ، نبی آخر الزماں سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کی آفاقی نبوت کے بعد یہ
سلسلہ توختم ہو گیا لیکن رشد و ہدایت کی ضرورت بہر حال باقی رہی ، اسی لیے ارشاد
رسالت مآب ﷺ عُلَمَاءُ
أُمَّتِي كَانَبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (میری امت کے
علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثل ہیں یعنی ہدایت ورہنمائی کا جو فرض وہ ادا
کرتے تھے وہ میری امت کے علماء ادا کریں گے ) اس کے مطابق علماء و صلحاء اور اولیاء
اللہ کا ایک لامتناہی سلسلہ تا قیامت ملت اسلامیہ کی رہنمائی اور رشد و ہدایت کا
فریضہ انجام دیتا رہے گا ، اللہ کاہر ہے، اسے ضروریات دین اور مسائل فقہ کا بخوبی
علم ہوتا ہے بلکہ ولی اس عالم کو کہا جاتا جو علم وعمل دونوں میں ممتاز ہو، جس کے
تجر علم اور عبادت وریاضت نیز تقوی وطہارت کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہو جسے دیکھ
کراللہ رسول اور ان کے ارشادات و احکامات یاد آجاتے ہوں اور جس کے حضور بے ساختہ
سر نیاز جھک جاتے ہوں، ایسے قدسی صفات لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں اور ملک و ہر
علاقےاور ہر بستی میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہتے ہیں۔
صالح بندہ اور ولی اپنے وقت کا جید عالم بھی ہوتا ایسی قدسی صفت
حضرت
خطیب البراہین حضرت صوفی نظام الدین قادری برکاتی محدث بستوی کو جو مقام و مرتبت
اور حیثیت مرجعیت حاصل تھی وہ کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے ، وہ سلسلہ عالیہ قادریہ
برکاتیہ، رضویہ دونوں شاخوں کے مہر منیر تھے، ان سے منسلک اور وابستہ بندگان خدا کی
تعداد لاکھوں میں ہے، ہزاروں مریدین و
معتقدین ان کی راہوں میں پلکیں بچھاتے تھے اور سرآنکھ پر جگہ دیتے تھے، ایک طویل
زمانہ تک ان کے مواعظ حسنہ ذوق و شوق سے سنے گئے ہیں، وعظ و نصیحت کی ان محفلوں کے
ذریعہ سے آپ نےہزار ہا بندگان خدا کو خدا تک پہونچایاہے، آپ کی نصیحتوں سے متاثر
ہو کر انھیں تو بہ
صاحب
علیہ الرحمہ نے ان خوبیوں کو اپنے عزم جواں سے ہی حاصل کیا ہے، ان کا تعلق پیران
عظام کے روایتی اور خاندانی سلسلے سے نہیں تھا، نہ ہی وہ کسی دوسرے کی مسندارشاد
پر متمکن ہو گیے، نہ ہی انھیں بچھی بچھائی آراستہ و پیراستہ گدی ملی تھی بلکہ یہ
منصب و مقام اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ ان کی اپنی قوت باز یعنی علم و عمل
حسن کردار حسن اخلاق اور اتباع سنت کا نتیجہ ہے۔
کشف و کرامت نہ ولایت و قبولیت کے جزو ہیں اور نہ ان کی دلیل محققین نے وضاحت کی ہے کہ دین مبین پر استقامت کا مرتبہ کرامت سے بہت بلند ہے کیوں کہ مافوق الفطرت امور اور شعبدے تو جادو گر بھی دکھا دیتے ہیں لیکن وہ ان کی کرامت نہیں کہلاتے ہاں اللہ تعالٰی اپنے خاص مخلص بندوں سے بعض چیزوں کو ظاہر فرما دیتاہے وہ ان کے عند اللہ مقبول ہونے اور لوگوں میں ان کی وجاہت و مقبولیت کا سبب ہوتے ہیں، اہل سنت اولیاء اللہ کی کرامت کو برحق سمجھتے ہیں لیکن اہل نظر اور اہل علم استقامت فی الدین اور اتباع سنت کو ہی سب سے بڑی کرامت سمجھتے ہیں اور یہ سب سے بڑی کرامت حضرت صوفی نظام الدین محدث بستوی علیہ الرحمہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔
اتباع
شریعت جہادفی النفس کے بغیر ممکن نہیں اور جہادفی النفس کو افضل جہاد کہا گیا ہے
جو شخص اپنے نفس پر قابو پا کر خودکو شریعت کا پابند بنالیتا ہے اور سنت کے سانچے
میں ڈھال لیتا ہے وہی ولی کامل ہے جیسا کہ سورۃ انفال رکوع ۴
ر پارہ 9 میں ارشاد باری ہے:" إِنَّ أَوْلِيَاءَ هُ إِلَّا
الْمُتَّقُونَ وَلَكِنْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ “اس کے اولیاء تو
متقی و پرہیز گارہی ہیں مگر ان میں اکثر کوعلم نہیں )حضرت خطیب البراہین کو جاننے
والے جانتے ہیں کہ وہ طالب علمی کے دور ہی سے جہاد فی النفسہ میں لگے رہے سنت کی
کامل پابندی ان کا شعار رہاوہ عالم باعمل تھے اور یہ وصف علماء میں بھی کم پایا
جاتا ہے۔ یہ وہ وصف ہے جو تمام اوصاف کا جامع ہے تمام دینی و اخلاقی اور روحانی
خصوصی
پیش کش : نیپال اردو ٹائمز
Comments
Post a Comment