حضور صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ و الرضوان امت کے لیے مشعل راہ (شجرالدین علیمی صحافی نیپال اردو ٹائمز)

 

حضور صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ و الرضوان امت کے لیے مشعل راہ

شجرالدین علیمی نظامی ( صحافی نیپال اردو ٹائمز)

                                                                        اللہ رب العزت نے جب سے اس کائنات کا وجود بخشا اور بنی نوع انسانی کواس میں آباد کیا اس وقت سے لے کر آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک نبیوں اور رسولوں کو بھیجتا رہا ان کے اصلاح اور ہدایت کے لیےاور جب یہ سلسلہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہو گیا تو اللہ رب العزت نے امت محمدیہ میں علماء اور نیک بندوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کی  اصلاح و رہنمائی کریں ۔ کیونکہ علما انبیا کے وارث ہیں جیسا کی حضور صلی اللہ علیہ وسلما نے ارشاد فرمایا: "العلماء ورثة الأنبياء" یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اللہ تعالی علماء کے ذریعہ دین اسلام کی خدمت لیتا ہے انہیں اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک نام حضور خطیب البراہین صوفی نظام الدین علیہ الرحمہ کا ہے۔

 ولادت:

ایک مشہور و معروف گاؤں آگیا، پوسٹ دودهارا، ضلع سنت کبیر نگر (یوپی) کی سرزمین پر 21 رجب المرجب 1346ھ کو آپ کی ولادت با سعات ایک نیک خاندان میں ہوئی، والدین کریمین نے آپ کا نام نظام الدین  (علیہ الرحمہ) رکھا۔ وفات یکم جماد الآخرہ 1434ھ  بروز جمعرات صبح آٹھ بجے اس دار فانی سے رحلت کر کے دار بقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد حبیب الرحمن صاحب مد ظلہ العالی و النورانی نے پڑھائی، اور آپ آگیا ہی میں مدفون ہوئے۔

 تعلیمی سفر:

ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرنے کے بعد اپنی تعلیمی سفر کا آغاز دار العلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ بستی سے فرمایا اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی عظیم سنی درسگاہ الجامعة الاشرفية مبارک پر میں داخلہ لیا اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے علم کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہوئے۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی نگاہیں خاص کر آپ پر رہتی تھیں، کیونکہ آپ بچپن سے ہی صوفی تھے۔

 صوفی کا لقب

 حضرت مولانا احمد علی صاحب مبارکپوری (علیہ الرحمہ) کا بیان ہے کہ میں جب فجر کی نماز کے لیے طلبہ کو بیدار کرنے جاتا تو مولانا نظام الدین (علیہ الرحمہ) کو ہمیشہ وضو کرتے یا وضو سے فارغ پاتا۔ جب آپ الجامعة الاشرفية مبارکپور میں زیر تعلیم تھے، اس وقت آپ نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں یہ عریضہ پیش کیا کہ حضور میرے ساتھی مجھے صوفی کہتے ہیں، جبکہ میں اپنے آپ کو اس کا مصداق نہیں سمجھتا آپ ان لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح نہ کہیں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نےآپ کو بغور دیکھا اور پر زور انداز میں ارشاد فرمایا: "جی ہاں، ہم بھی آپ کو صوفی کہتے ہیں اور آپ ہیں اس لئے تو کہتے ہیں"۔

 تدریسی خدمات:

آپ علیہ الرحمہ نے مختلف مدارس دینیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں:

1. دارالعلوم اہلسنت فیض الاسلام مہنداول ضلع سنت کبیر نگر۔

 

2. دار العلوم اہلسنت شاہ عالم احمد آباد گجرات۔

3. دار العلوم اہلسنت تنویر الاسلام امرڈوبھا خلیل آباد۔

آپ ریٹائر ہونے کے بعد بھی بلا معاوضہ 21 سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔

 خشیت الٰہی:

اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے  (إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ )[فاطر:28]،  بے شک اللّٰہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو ( زیادہ) علم والے ہیں درحقیقت آپ علیہ الرحمہ اس کے مصداق تھے جیساکہ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کس قدر خشیت الہی آپ کے اندر تھی۔

ایک بار آپ علیہ الرحمہ اپنی زمانہ طالب علمی میں کھیت گئے اس وقت مٹر کی فصل تیار تھی آپ ایک کھیت سے مٹر کی پھلیاں توڑنے لگے، اسی درمیان گاؤں کے ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا، اس نے حضرت کو دیکھ کر کہا "صوفی صاحب یہ آپ کا کھیت نہیں، یہ تو تجمل حسین صاحب کا کھیت ہے"۔ اتنا سننا تھا کہ خوف الٰہی سے آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا اور آپ کے ہاتھ رک گئے۔ فوراً آپ گھر واپس آئے اور کھیت کے مالک کے گھر پہنچے، اس سے واقعہ بتا کر معافی مانگی اور بچی ہوئی مٹر کی پھلیاں واپس کردیں۔ کھیت کا مالک حضرت صوفی صاحب کی خشیت الٰہی اور خوف خداوندی دیکھ کر حد درجہ متاثر ہوا اور بہت ساری دعائیں دیں۔ اللہ رب العزت ہمیں حضرت کے اس واقعے سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بکھرہ میں ایک بار آپ کچھ علماء کے ساتھ بھونو بھائی سلائی ماسٹر کی دکان پر تشریف لے گئے اور ان سے کہا: "میرا یہ پوری آستین والا سوئٹر ہے، اسے پہن کر وضو بنانے میں دشواری ہوتی ہے، آپ اس میں چین لگا دیں"۔ حضرت انھیں سوئٹر دے کر علماء کے ساتھ دین کی باتوں سے مشغول ہوگئے۔ ادھر ماسٹر موصوف نے آستین چاک کیا اور اپنے کترن سے ایک سفید کپڑا نکال کر چین کے ساتھ سل دیا کچھ دیر بعد حضرت نے فرمایا: "آستین بنا دیجئے، اب ہم چلیں گے" ٹیلر ماسٹر صاحب نے کہا: "حضرت بن کر تیار ہے"، اور سوئٹر آگے بڑھادیا۔ حضرت نے آستین دیکھا تو فرمایا: "یہ سفید کپڑا آپ نے کہاں سے لگادیا؟" عرض کیا: "حضور کترن سے نکال کر لگا دیا"۔ یہ سن کر حضرت کا چہرہ متغیر ہوگیا اور فرمایا: "یہ تو بہت غلط ہوا، آپ اسے فوراً نکال دیں۔ دوسرے کا کترن بلا اجازت میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے"، اور پھر آپ نے کپڑے کی دکان سے ایک گرہ کپڑا خریدوا کر منگوایا، پھر اسے لگا کر سوئٹر میں چین سلی گئ۔

حضورصوفی نظام الدین علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی کو دینِ اسلام کی ترویج، مسلک اہل سنت کی پاسداری اور لوگوں کی اصلاح کے لیے وقف کر دیا۔ آپ کا مشن یہ تھا کہ امت کو سنتِ نبوی ﷺ اور تعلیماتِ شریعت سے روشناس کرایا جائے اور ان کے دلوں میں اللہ کا خوف بٹھایا جائے۔ آپ نے اپنی زندگی میں لوگوں کو اسلامی طور وطریقے سے جینے، سچائی، دیانت داری کا سبق دیا۔ دین کی اشاعت اور صحیح عقائد کی حفاظت میں آپ نے ہمیشہ ثابت قدمی دکھائی اور ہر قسم کی آزمائش کو برداشت کیا۔ آپ کے مشن کی بنیاد تقویٰ، اخلاص، اور دین سے محبت تھی، جس کا اثر آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔

آپ کی زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق:

. تقویٰ اور خشیت الٰہی: آپ کی زندگی سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ اللہ کا خوف اور دین کے احکام پر مکمل عمل انسان کو عظمت بخشتا ہے۔

. خدمتِ خلق اور لوگوں کی اصلاح: آپ نے ہمیشہ امت کی اصلاح اور لوگوں کی مدد کو ترجیح دی۔ آپ کی شخصیت میں شفقت و محبت تھی۔

. سنتِ نبوی کی پیروی: آپ نے اپنی زندگی میں ہر حال میں سنت پر عمل کیا اور ہمیں یہ سبق دیا کہ ایک مسلمان کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔

. اخلاص اور ثابت قدمی: آپ کی زندگی کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ جب دین کے کام میں اخلاص ہو اور انسان اللہ کی رضا کے لیے کام کرے، تو وہ ہر آزمائش کو کامیابی سے عبور کرتا ہے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو دین پر قائم رکھے اور حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کے فیوض و برکات سے ملا مال فرماۓ ۔

شجرالدین علیمی

Comments