او آئی سی(OIC) یعنی ستاون (۵۷) مسلم ممالک کی تنظیم:ازقلم: مولانا محمد یوسف رضا قادری مدنی(NEPAL URDU TIMES)

او آئی سی(OIC)  یعنی ستاون (۵۷) مسلم ممالک کی تنظیم


مولانا محمد یوسف رضا قادری مدنی

(مقیم حال مدینہ منورہ۔) ٹرسٹی جامعۃ حضرت نظام الدین اولیاء نئی دہلی

                                                        ایک زمانہ تھا جب دنیا کے کسی گوشے میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جاتا تو خلافت عثمانیہ کی فوج فورا حرکت میں آجاتی اور ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچادیا جاتا تھا، اس وقت حال یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خوف سے دشمنان اسلام لرزہ بر اندام رہتے تھے مگر صدیوں امت مسلمہ کی رہنمائی وقیادت کرنے والی اس عظیم سلطنت کو سازشوں کے تحت یہود ونصاریٰ نے پہلی جنگ عظیم کےوقت اس طرح سے توڑا کہ اس کا نام و نشان بھی مٹ گیا اور امت مسلمہ بے سہارا ہوگئی ۔۔ اسلام کی چودہ صدیوں میں اہل اسلام جن بڑے خساروں سے دوچار ہوئے ان میں بیسویں صدی میں سقوط خلافت عثمانیہ اور بیت المقدس پر یہودیوں کا تسلط بھی شامل ہے ۔

  آج ایک صدی کے بعد ستاون مسلم ممالک وجود میں آگئے جن میں کئی ممالک کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے پناہ اسباب ووسائل سے نوازا ہے ان کے قدموں کے نیچے تیل کی شکل میں دولت کا دریا بہتا ہے پھر ان ستاون ممالک نے ایک تنظیم بھی بنالی جس کا نام ہے او آئی سی Organization of Islamic Co Operation اس کے قیام سے ایک امید بندھ گئی تھی کہ شاید اب دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل کے لیے یہ تنظیم کچھ کرے گی، پھر بائیس عرب ممالک بھی ہیں جنہوں نے عرب لیگ کے نام سے ایک اور تنظیم بنائی ۔۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ یہ دونوں تنظیمیں مل کر دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی تعمیر وترقی و تعلیم اور غربت کے خاتمے کے لیے کچھ کرتے مگر ان کی کارکردگی کیا ہے پوری دنیا جانتی ہے، ایک سال سے فلسطین کی سرزمین پر جنگ جاری ہے جس میں چالیس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوگئے، اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ومعذور ۔۔۔ اور اگر گزشتہ ستر سالوں کے حال پر نظر ڈالی جائے تو شہداء کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے اور بے گھر بے وطن ہوکر مختلف ممالک میں پناہ لینے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، مگر مسلم ممالک کا یہ متحدہ پلیٹ فارم آج تک مسئلہ فلسطین کو حل نہ کرسکا اس کی کو ظلم و ستم اور بےبسی کا حال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے ملک اسرائیلغارت گری سے باز تک نہ رکھ سکا اس نے کوئی ایسی موثر کوشش ہی نہ کی جس کے نتیجے میں جنگ اور تباہی و بربادی و نسل کشی رک سکے ۔۔نہ اپنے بل پر نہ اقوام متحدہ کے ذریعے ۔۔جب کبھی او آئی سی کی میٹینگ ہوتی ہے تمام ممبر ممالک کے سربراہان جمع ہوتے ہیں ماتم کرتے ہیں اور کچھ قرارداد پاس کرتے ہیں۔۔ اسرائیل کی لفظوں سے مذمت کرتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں حکمرانی کے مزے لوٹنے کے لئے واپس چلے جاتے ہیں اسرائیل کو ان مسلم ممالک سے کوئی خوف نہیں ہے وہ جانتا ہے یہ او آئی سی کی میٹینگ میں کیا کریں گے سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اوراپنی اپنی تجارت ہے وہ مسلم مسائل کے حوالے سے کسی بھی ملک سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے مسلم حکمرانوں کے اسی مزاج نے فلسطین کو جہنم بنارکھا ہے ،   ہندوستان میں بے شمار مسائل و مصائب پیدا کئے جارہے ہیں سازشیں کی جارہی ہیں ہر روز ہم ایک نئے مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں ہماری جان مال عزت آبرو اسباب وسائل مساجد مدارس ادارے اوقاف سب مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں مگر ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اپنے مسائل کے لئے خود جدو جہد کرنی ہوگی مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں سے کوئی امید و توقع نہیں رکھنی چاہئیے جب وہ اہل فلسطین کی مدد نہیں کرسکتے ۔۔۔

    مسجد اقصی کے تحفظ کا کوئی جذبہ انھیں میدان میں نہ لاتا ۔۔۔تو ہماری وہ کیا مدد کریں گے۔۔ ہمارے ملک میں تو کوئی مسجد اقصیٰ بھی نہیں ،گزشتہ کئی روز سے میانمار میں بھی مسلمانوں پر وہی مظالم ڈھائے جارہے ہیں جو غزہ میں اسرائیلی فوج کے ذریعے ڈھائے جارہے ہیں لاکھوں مسلمانوں کو ملک سے نکلنے پر مجبور کیا جارہاہے اور ڈرون کے ذریعے سیکڑوں مسلمانوں کو لقمہ اجل بنادیا گیا میانمار کے مسلمان بہت بڑی تعداد میں بھاگ کر بنگلہ دیش کی سرحد پرخیمہ زن ہیں مگر عرب لیگ خاموش۔۔ او آئی سی خاموش ۔۔اقوام‌متحدہ خاموش ۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا سے انسانیت کا خاتمہ ہوگیا ہے مظلوموں کی آہیں سننے والا کوئی کان نہیں ، ظلما مارے جانے والوں پر آنسوں بہانے والی کوئی آنکھ نہیں۔۔ یتیموں و بیواؤں کا درد محسوس کرنے والا کوئی دل نہیں    ان حکمرانوں کا انجام بروز حشر دردناک ہوگا۔۔۔ مظلوم امت کی مددکی طاقت رکھنے کے باوجود یہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ستاون ممالک کی لاکھوں فوج ہے۔۔۔ اسباب ووسائل کی کوئی کمی نہیں  اس کے باوجود یہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اگر یہ چاہیں تو امریکہ و اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کو چوبیس گھنٹے سے پہلے سیدھا کرسکتے ہیں ان کو ظلم سے روک سکتے ہیں(1) امریکہ کی جو فوجیں عرب ممالک میں ہیں انھیں واپس بھیج دیں،(2)جو سرمایہ ان ممالک کا امریکی بینکوں میں ہے اسے واپس نکال لیں(3)تجارتی تعلقات منقطع کرلیں(4)تیل کی سپلائی بند کردیں۔(5)امریکی واسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔صرف یہ چند جرات مندانہ اقدامات کرلیں تو  نہ ایک بم کہیں گرانے کی ضرورت ہوگی  نہ میزائل ۔۔صرف اپنے ان  فیصلوں کا اعلان کردیں تو ابھی فلسطین میں جنگ بند ہوسکتی ہے ایک روز میں  مسئلہ فلسطین کا حل نکل سکتاہے مگر امت مسلمہ کی شومئی قسمت کہ حکمرانوں کے اندر ان اقدامات کا جذبہ ہی نہیں وہ اپنی طاقت قوت اہمیت سب سے ناواقف ہیں یا قصدا ناواقف بنے ہوئے ہیں ہماری تعداد دنیا میں ایک سو اسی کروڑ ہے اور یہودیوں کی تعداد دیڑھ کروڑ ہے مگر اس کے باوجود وہ ہم پر غالب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں اور یہودی استعداد میں زیادہ ہیں اگر یہ ستاون مسلم ممالک مل کر مومنانہ جذبہ سے کام کریں اور مسلمانوں کی فکر کریں ان کی مدد کریں ان پر آنے والی مصیبتوں کا ازالہ کریں تو بہت حد تک خلافت عثمانیہ کی کمی پوری کرسکتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پر کوئی ظلم کرنے کی ہمت نہ کرسکے گا


Comments