از :محمّد گلفام فیروز
متعلم جامعہ اشرفیہ مبارک پور یوپی
ہر چیز کی ایک غرض ہوتی ہے اور اسی غرض کو لیکر
انسان ہمیشہ کوشاں رہتا ہے جب تک کے اُس کی
غرض پائے تکمیل تک نہ پہنچ جائے ،اسی طرح ہر انسان کو اس بات کا جاننا نے بےحد ضروری ہے کی اس نے کس مذہب کو اختیار کیا
ہے اور اُس مذہب کا مقصد کیا ہے، اسی طرح اسلام کو اختیار کرنے والوں کے لیے بھی ایک
مقصد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے، اور ہر انسان پر ضروری ہے
کے وہ اپنے فرض کو ہر شئی پر مقدم کرے کیوں کہ جو انسان اپنے فرض کو بخوبی انجام دیتا
ہے وہی اُس کا حق ادا کرتا ہے اور اُس کا اجر پاتا ہے چاہے دینی اعتبار سے ہو یا
دنیوی، اسی طرح اللہ نے اپنے بندوں کے ذمّہ ایک فرض سونپا ہے اور اس کو اپنے مقدّس
کلام میں ارشاد فرمایا (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِّلَّا لِيَعْبُدُوْنِ) ترجمہ ۔۔اور میں نے جن اور آدمی اس لیے بنائے
کہ وہ میری بندگی کریں (پارہ ۶۷ سورة ذاريات ) تو۔ اس
آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ
اُن کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اُس کی معرفت حاصل کرے اور عبادت کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کی وہ اللہ کے دیے گئے دیگر امور کو بھی سر انجام دے مثلاََ نیک کام کرے اور برے کاموں سے اجتناب
کرے ۔
آج انسان اپنے اصل مقصد کوبھول کر غیر معمولی۔
کاموں میں اپنے وقت کو برباد کر رہے ہیں، اللہ کسی کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے،
تو اُس کی خوشی دیکھ کو دوسرے حسد کرنے لگ جاتے ہیں، اور گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں،
انسان اپنی مفاد کے لیے دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں حالانکہ یہ ہمارا مقصد نہیں ہے،
ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی بلکہ سرکار کا
طرزِ عمل تو یہ تھا کہ خود بھوکے رہتے تھے لیکن دوسروں کو شکم سیر کرتے تھے ،اورآج
انسان کی یہ فطرت ہو چکی ہے کی صرف خود کو دیکھتا ہے دوسروں کا خیال نہیں کرتا،
سرمایہ دار غریب کو گری نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کو خود سے دور رکھتے ہیں، علم والے
بے علم کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں، غرور
وتکبر ،بغض و حسد میں لگے رہتے ہیں،
حالانکہ انسان کا یہ مقصد نہیں ہے، کیوں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے
خطبۃ الوداع میں ان ساری حدیں توڑ کر
انسان کی ہموار سطح کو برابر کر دیا :لوگوں
! ہاں بیشک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ! ہاں عربی کو عجمی پر اور عجمی
کو عربی پر سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو
سرخ پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب سے ، اللہ تعالی نے تم سے جاہلیت کی جہالت
اور آباء و اجداد پر فخر کو مٹا دیا، انسان اللہ سے ڈرنے والا مومن ہوتا ہے يا اُس
کا نا فرمان شقی ،تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبے میں انسان
کی ساری حدیں ٹوٹ گئی ۔
اب انسان کے لیے ضروری نہیں کے وہ اپنے آپ کو کسی سے بڑا سمجھے انسان پر ضروری
ہے کہ وہ اپنے مقصد کی طرف رجوع کرے اور اللہ کی عبادت کرے اور امربالمعروف اور نهى عن المنكر پر عمل کرے ، اللہ کے سارے احکام کو اوّلین فرض
سمجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے اور نیک اعمال کر کے آخرت کے لیے توشہ
بنائے اور تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
(اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّهِ
اَتْقَاكُمْ ) ۔ترجمہ ۔بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا و ہے جو تم میں زیادہ
پرہیزگار ہے (پارہ ۲۶ سورۃ
حجرات ) تو انسان کو غرور و تکبّر
سے اجتناب کرنی چاہیے کیوں کہ ایک مرد حضرتِ آدم علیہ السلام اور ایک عورت حضرتِ
حوّا سے انسان کو پیدا کیا اور جب نسب کے اس انتہائی درجہ پر جاکر سب مل جاتے ہیں
تو نسب میں ایک دوسرے پر فخر اور بڑائی کا اظہار کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اسی لیے
انسان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کی طرف
رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور اس مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یارب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ

Comments
Post a Comment