ماہ ربیع النور میں سلطان دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری
از قلم :
محمد حسن المعروف سراقہ رضوی۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو
رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے بہت سارے انبیاء و مرسلین کو عالمِ دنیا میں
مبعوث فرمایا چنانچہ اکناف عالم میں نبوت ورسالت کے روشن ستارے بار ہا اپی تابشوں سےاکناف
عالم کو منور و مجلی کرتے رہے ۔ بحرو بر خشک و تر کوہ و جبل غرض کہ پوری دنیا پر اپنی
روشنیوں سے پیہم عالم نور بنتے رہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام
تک سارے انبیاء و مرسلین معجزات لے کر تشریف لائے معجزات کا مشاہدہ کرکرکے بہت سے بندۂ
خدا مذہب اسلام میں داخل ہوتے رہے
غرض دنیا میں مسلسل انبیاء علیہ السلام
کا ورود مسعود ہوتا رہا اوران کے فیضان صحبت و برکات سے دنیا مستفیض ہوتی رہی ان مقدس
نفوس قدسیہ کی صداؤں سے ساری دنیا گونج اٹھی ساری دنیا میں خدا پرستی کے جھنڈے بلند
ہونے لگے دن اور سال گزرتے گئیے یہاں کہ مبارک زمانے ختم ہوگئے نفوس قدسیہ اپنے مالک
حقیقی سے جا ملیں پھر کیا تھا؟ کافی لمبا عرصہ
گذرنے کے بعد وحشت و ظلمت نے پھر غلبہ اختیار کر لیا لوگ ابلیس لعین کے دامِ مکر و
فریب میں پھنس کر بتوں کی پوجا شروع کردئیے
ایک وحشت ناک مہیب و سیاہ ڈراؤنی رات کا
مخلوقِ خدا پر تسلط ہوگیا، بیت اللہ جیسے مقدس عبادت خانہ میں اصنام و اوثان
نصب کر دئیے گئےاور بلا خوف و خطر بت پرستی ہونے لگی۔ حرام و حلال کافرق و امتیاز کا
فقدان ہونے لگا ظلم و ستم کا بازار گرم ہوگیا قتل و غارت بے شرمی و بے حیائی کادور دورہ ہوگیا،
انسان درندہ صفت بلکہ درندوں سے بھی بدتر ہو گئے۔اہل عرب نے بتوں کو معبود بنایا۔ اپنی
لخت جگر بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا دین کا ایک حصہ قرار دے دیا زمین میں فتنہ انگیزی ان کی عادت اور خونریزی ان
کی طبعیت بن گئی ، تجارت کے بجائے لوٹ مار ڈاکہ زنی ان کا شیوہ بن چکا تھا۔ اہل فارس
آتش پرستی میں گرفتار ہوئے ماؤں تک کے ساتھ انھوں نے بدکاری روا رکھاایسے بھیانک ماحول
میں ضرورت تھی معلم کائنات کی محسن انسانیت کی
جو ان کالی گھٹاؤں کو کافور کرے جس کے باعث لوگوں کو روشن اور تابناک زندگی
گزارنے کا موقع میسر ہو پوری انسانیت فریاد کر رہی تھی التجا کر رہی تھی بیت اللہ شریف فریاد کر رہا تھا، ہمہ تن آنکھ بن کر اس مقدس آنے
والے کی راہ تک رہا تھا جن کے قدوم پاک کے مس و لمس سے اس کی عزت وعظمت، کو لوگوں میں اجاگر کرے جس کی تشریف
آوری کا مژدہ حضرت مسیح و خلیل ہی نہیں بلکہ جملہ انبیاء و مرسلین عليهم الصلاة والتسلیم
دیتے چلے آے تھے۔ مختار دو جہاں کی بعثت سے
پہلے پورے عالم میں اس ہادی دو عالم کی تشریف آوری اور جلوہ افروزی کی دھوم مچ رہی
تھی، انبیا علیہم الصلوة السلام کی بشارتوں نے دنیا کو محو انتظار بنادیا تھا۔ آثار
و نشانات کے ظہو نے شوق کے ولولے تیز کردیئے تھے ہر زبان پر انہیں کے تذکرے تھے در دیوار چمک اٹھے تھے ، ہوائیں
بدل گئیں تھیں، زمین و آسمان خوشیاں منا رہے تھے خشک سالی کی جگہ خوش حالی نے لے لی
تھی، خشک صحرا سر سبز و شاداب ہو گئے تھے ۔ بھوکے اور دبلے فربہ نظر آر ہے تھے۔ دنیاکی
کایا پلٹ رہی تھی، جہاں کا نقشہ بدل رہا تھا ۔
جب وہ ماہ چرخ نبوت اپنے منازل طے فرما
کر منزل آخر میں پہنچا اور آبا و اجدادکی پیشانیوں کو مطلع انوار بنا کر والدہ ماجدہ
کو تفویض ہوا حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس نور پاک کی روشنی میں بصرہ و شام
تک کی عمارتیں ملاحظہ فرمائیں اس سے معلوم ہوتا تھا کہ آنے والا اس عظمت و شان کا آنے
والا ہے کہ اس کی تشریف آوری سے باطل کا تختہ الٹ جائے گا اور علوم کے سمندر دنیا میں
موجزن ہو جائیں گے ۔ اب ولادت با سعادت کازمانہ قریب آیا۔رہبان واخبار نے شب ولادت
کی اطلائیں دیں اور بتایاکہ آج ہی کی شب ، شب ولادت ہوگی ۔ فرش
زمین عرش بریں کی روشنیوں سے جگمگانے
لگا۔ آسمانی دل ربا شیدائے زمین ہوئے فلک کے نور پیکر مہ ونجوم اس قدر قریب ہوئے جس
سے دیکھنے والوں کو خیال ہوا کہ زمین بوس ہو پڑیں گے
کارکنان عالم غیب نے تین جھنڈے نصب کئے
ایک کعبہ معظمہ پر ایک مشرق میں ایک مغرب میں تاکہ معلوم ہو کہ ختم رسالت کے تاجدار
کی
صلی اللہ علی محمد
صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو خبر دی گئی، سنتے ہی سجد میں گر گئے۔ پھر آکر چہرہ انور کی زیارت کی تمناؤں کے ساتھ
گود میں لیا اور کعبہ شریف میں لیجا کر سجدہ ادا کی۔ سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے دنیا میں آتے ہی سجدہ کیا اور انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کی آپ کی ولادت
کے وقت سارے بت سجدہ میں گر پڑے اور کعبہ کی
دیواروں سے یہ آوازیں آنے لگیں۔
ولد المصطفى
المُخْتَارُ الَّذِي تُهْلِكُ
بَيْدِهِ الكُفَّارِ
وَيُظْهِرُ مِن
عِبَادَةِ الأَصْنَامِ وَ
يَا مُرْ بِعِبَادَةِ الملك العلام
کعبہ معظمہ آپ کی ولادت شریف سے تین
روز تک جنبش میں رہا خوشی کے عالم میں وجد کرتا رہا۔ نوشیرواں کے مکان اور بت کدوں میں زلزلہ آیا
اور بہت عجائب و غرائب ظہور میں آئے ہے جس پر کئی کتابیں تالیف ہوسکتی ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اللہ
تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے اللہ کا تعالیٰ کا
حکم جب کوئی نعمت ملے تو اللہ کا شکر ادا کروں اچھے کام کرو
اسی لئے ماہ ربیع النور کا چاند طلوع
ہوتے ہر زندہ دل مسلمان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اپنے وجود کو فرحت و مسرت کی وسیع وادی
میں سیر وتفریح کرانے لگتا ہے لوگ خوشیاں منانے لگتے ہیں چراغاں کرتے روزہ رکھ کر ثواب
دارین حاصل کرتے ہیں، سچے مسلمان آقا کی محبت میں
محفلیں منعقد کرتے جلوس نکالتے ہیں ذکر انبیاء و مرسلین کرتے ہیں ، مبارک محفلیں
میلاد شریف تحدیث نعمت الہی اور برکت و رحمت کی وجہ سے پوری دنیا میں نہایت ہی شان
و شوکت کے ساتھ جلسہ جلوس کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ماہ ربیع
النور کی فضیلتوں اور برکتوں سے مالا مال فرماے عالم اسلام کے مسلمانوں کی حفاظت و
صیانت فرماے سب کی کمائی میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین الکریم
صلی اللہ علیہ وسلم
سراقہ رضوی بھیرہوا ں نیپال مقیم
حال کویت
Comments
Post a Comment