از: مظہر حسین علیمی نظامی جامعہ رضویہ رستم پوریہ بات اظہر من الشمس
ہے کہ انسانی زندگی کے جوانی کا دَور بڑا ہی پرجوش اور جذبات سے لبریز
ہوتا ہے، جس میں انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی فتوحات اپنے
نام کرکے ہر میدان میں سرخروئی حاصل کرتاہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا
جا سکتا کہ ہر دَور میں نسل انسانی کو ایک ایسے پیشوا کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے،
جس کے کردار و عمل کو وہ اپنے لیے مشعلِ راہ بناسکے اور اس کی تقلید کرسکے، اور
وہ اسے اپنا رول ماڈل اور آئیڈیل بناسکے۔ الحمدللہ اس
معاملے امت مسلمہ بہت ہی خوش نصیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور رحمۃ للعالمین،
خاتم المرسلین حضرت محمّد مصطفےﷺ کو مبعوث فرماکر ہماری زندگی کے ہر شعبے کو
روشن و تابناک بنادیا۔ اور حضورﷺکی ذاتِ اقدس سے ہمیں زندگی کا شعور ملا۔ نبی کریم
ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے اگر ہم اُن کی جوانی کے ایام کا جائزہ لیں، تو اُن میں
نسلِ نو کے لیے بہترین زندگی گزارنے کے ہنر پنہاں ہیں جن پر عمل کرکے نوجوان اپنے معاملات و
معمولات زندگی کو چست و دُرست بناسکتا ہے۔ اور معاملات کی دُرستی صرف اعمالِ
صالح کے لیے نہیں، بلکہ معاشرے میں موجودہ بگاڑ کے سُدھار میں بھی کارگر ثابت
ہوگی۔ مگر دور حاضر کے نوجوانوں کی غلط روش کو دیکھ کر انتہائی
افسوس ہوتا ہے کہ غیروں نے ھادئ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کو
اپنا کر فلاح دنیا حاصل کرلیا، مگر اپنوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
حیاتِ طیبہ سے منھ موڑ کر ذلت ورسوائی کو اپنا مقدر بنالیا۔ جب کہ نبی اکرم ﷺ کی صداقت و امانت کا مطالعہ ہم بچپن سے
کرتے آرہے ہیں، اُنؐ کی صداقت و امانت کا عالَم یہ تھا کہ حضور کے جانی دشمنِ
بھی انہیں صادق الوعد اور امین کہا کرتے تھے۔کفارِ مکّہ نے حضور ﷺ کی ذاتِ
مبارکہ کے حوالے سے سنگین ترین الفاظ کا استعمال کیا، لیکن کبھی اُنہیں جھوٹا نہیں
کہا۔ نوجوان نسل اگر سچائی کی طاقت کو سمجھ کر اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیں
تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ یہ بات بھی قابل غور کہ ہم جس رسول کی امت میں ہیں ان کی
حیاتِ مبارکہ کا آغاز ہی تعلیم و تعلم سے ہوا، مگر آج قوم مسلم تعلیم میں دیگر
قوموں سے بہت پیچھے ہے۔ تعلیم امت کے لئے میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
بزنس وتجارت کے میدان میں بھی قدم رکھا
تاکہ میری امت کو تجارت کا سلیقہ آجائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دور حاضر میں معاشرے کے تجارتی معاملات پر نظر دوڑائیں،
تو واضح ہوگا کہ ہم نے جو اندازِ تجارت اپنایا ہوا ہے، وہ دھوکے اور فریب پر مبنی
ہے۔ یعنی مال بیچتے ہوئے جھوٹ و مکر غالب رہتا ہے، کسی کے ساتھ کاروبار میں
شراکت داری کریں، تو دھوکا دینے سے باز نہیں رہتے، سودی نظام رائج ہے، ناقص مال
بیچ رہے ہیں۔ جب کہ تعلیمات نبویﷺ بتاتی ہیں کہ اگر نقص ہو تو گاہک پر واضح
کردو، پھر اُس کی مرضی کہ وہ خریدے یا نہ خریدے۔ پھر رسول اکرمﷺ کی حیاتِ طیّبہ کا ایک اور منفرد پہلو
جہدِ مسلسل ہے۔ میرے کریم آقا ﷺ نے دعوت و تبلیغ میں بے حد تکالیف اور پریشانیوں
کا سامنا کیا، لیکن اپنی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آپ نے اپنی مستقل مزاجی سے
ہمیں یہ باور کروایا کہ علمی و عملی میدان میں لگن، محنت اور جانفشانی ہی کامیابی
کی ضامن ہے۔ سیرت کا ایک اور پہلو، جو سب سے بنیادی اور اہم ہے، وہ ہے سادگی۔
رسول اکرمﷺکی پوری زندگی سادگی پر مبنی تھی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی لذیذ
کھانوں کی طرف طبیعت مائل ہی نہیں ہوئی، رہن سہن ایسا کہ اپنے لیے آرام دہ رہائش
کا کبھی اہتمام نہیں کیا اور لباس کی سادگی کا یہ عالم کہ پیوند لگے کپڑے زیبِ
تن فرمایا کرتےتھے۔غرض یہ کہ سیاست سے قانون،اخلاقیات اور گفتار تک ہر معاملے میں
آپ ﷺکی ذاتِ اقدس ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ مسلمان اپنے عروج و زوال کی داستان پر اگر نظرِ ثانی کریں،
تو معلوم ہوگا کہ جب تک ہم سیرتِ محمّدیﷺ کے پہلوؤں پر عمل پیراں وکاربند رہے،
تب تک دنیا پر حکومت کرتے رہے، جوں ہی سیرتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو
ترک کیا، اسلامی تعلیمات پسِ پُشت ڈالیں، وہیں سے ہمارے زوال اور پسماندگی کے
دور کا آغاز ہوا۔ اسی لئے تو علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور ہم خؤار ہوئے تارک قرآں ہو کر آج ہم اپنا جائزہ لیں تو خود بخود واضح ہوجائے گا کہ ماہ
ربّیع النُّور شریف میں ہم میلاد کی تقریبات کا تو دھوم دھام سےاہتمام کرتے ہیں،
لیکن اس ماہ میں جلوہ افروز ہونے والی ہستی کی زندگی، سیرت سے سارا سال ہی صرفِ
نظر کیے رہتے ہیں۔ کیا ہم نے خود سے کبھی سوال کیا کہ ’’کیا ہم واقعی ویسے ہی ہیں،
جیسا رسول اکرمﷺ ہمیں دیکھنا چاہتے تھے؟ |
Comments
ماشاءاللہ
ReplyDeleteسبحان اللہ
ReplyDeleteبہت عمدہ مضمون ہے
ReplyDelete