مصیبت پر صبر و اجر
|
از
قلم:توحید احمد برکاتی |
آرام و آسائش کے ساتھ ابتلا و آزمائش بھی انسان کی زندگی
کا حصہ اور لازمی جزء ہے جس سے کسی کو انکار
کی گنجائش نہیں۔ اس کا آغاز انسان اول کی پیدائش ہی کے وقت سے ہوا جب حضرت آدم
علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ تمام انبیائے کرام اور ان کی امتوں کو امتحانات اور
آزمائشوں سے گزرنا پڑا، ان حالات میں جس بندہئ مومن نے جتنا زیادہ صبر و ضبط کا
مظاہرہ کیا اسے اللہ کی نعمتوں سے اسی قدرحصہ ملا۔ انسان کی آزمائش درجات اور مراتب کے اعتبار سے ہوتی ہے،
یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس بندہ کا مقام و مرتبہ جتنا بلند و بالا اور ارفع و
اعلیٰ ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی اتنی ہی کرب انگیز اور مشقت خیز ہوتی ہے۔ چوں
کہ عام انسانوں کی بنسبت انبیاے کرام اللہ تعالیٰ کے مقرب ومحبوب ہوتے ہیں، اس
لیے ان کی آزمائش بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”سئل
النبی ﷺ أی الناس أشد بلاء قال الأنبیاء ثم الأمثل فالامثل۔ فیبتلیٰ الرجل علیٰ
حسب دینہ، فان کان فی دینہ صلبا اشتد بلاۂ و ان کان فی دینہ رقۃ ابتلی علیٰ حسب
دینہ فما یبرح البلاء بالعبد حتیٰ یترکہ یمشی علیٰ الارض ما علیہ خطیئۃ“(سنن
ترمذی) نبی پاک ﷺسے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے سخت
آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا”انبیاء کی پھر ان کی جو مرتبہ میں ان سے کم
ہوتے ہیں، پھر اس کی جو ان سے کم ہوتے ہیں۔ آدمی اپنے دین (ایمان) کے اعتبار سے
آزمایا جاتا ہے،لہذااگر کسی کے دین میں مضبوطی ہوتی ہے تو اس کی آزمائش زیادہ
سخت ہوتی ہے اور اگر اس کے دین میں نرمی ہوتی ہے تو اسی کے مطابق آزمایا جاتاہے
اوریہ آزمائش مسلسل ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب وہ آزمائشوں سے چھٹکارا پاتا ہے تو زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس
کے (نامہ اعمال میں)کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے۔“ ابتلا و آزمائش اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا
سبب ہوتی ہے، اس کی ناراضگی کے باعث نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ
اپنے رسولوں اور مقربان بارگاہ کو بلا میں نہیں ڈالتا، حالاں کہ اس نے انھیں بھی
آزمائش و امتحان میں ڈالا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے، حضرت
ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جان کی
اورحضرت ایوب علیہ السلام کو مال و اولاد کی قربانی پیش کرنی پڑی، حضرت یونس
علیہ السلام کو شکم ماہی میں اور حضرت یوسف علیہ السلام کو زندان شاہی میں رہنا
پڑا،حضرت زکریا علیہ السلام کا جسم آری سے شق کیا گیا اور ان کے لخت جگر یحییٰ
علیہ السلام کا سر قلم کیا گیا اور یہ سب کے سب اللہ کے مقرب بندے اور نبی و رسل
تھے۔ اللہ تعالیٰ
نے انبیاء و مرسلین کو آزمایا تاکہ امتیوں کے لیے آزمائشوں سے گزرنا آسان ہو
جائے اور سنت انبیا ء قرار پائے۔ وہ اولیاے کرام اور صالحین عظام کو آزماتا ہے
تاکہ ان کے درجات بلند سے بلند تر ہوں۔ عام مؤمنین کو آزماتا ہے تا کہ ان کے
گناہوں کا کفارہ اور نجات و مغفرت کا ذریعہ ہو۔ حدیث پاک میں ہے۔
عن ابی سعید الخدری وعن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ
قال ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولا ہم ولا حزن ولا اذی ولاغم حتیٰ
الشوکۃیشاکہا الا کفر اللہ بہا من خطایاہ“(صحیح البخاری) |
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”مسلمان کو جب بھی کوئی مصیبت، دکھ، غم، رنج، اذیت، اور تکلیف پہنچتی
|
اور دوسری
حدیث میں یوں مذکور ہے: ”عن
عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت قال رسول اللہ ﷺ اذا کثرت ذنوب العبدولم یکن لہ ما
یکفرہا من العمل ابتلاہ اللہ بالحزن لیکفرہاعنہ“ (مسند امام احمد بن حنبل) حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جب بندے کا
گناہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور اس کے عمل میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جوان
گناہوں کا کفارہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے تاکہ (مصیبت
پر صبر کرنا)اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے۔ آزمائش بندہئ مومن کا مقدر
ہے۔اس کے بغیر وہ نہ تو مومن کہلانے کا مستحق ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا انعام
پانے کا حق دار ہے، اللہ تعالیٰ جسے ایمان کی دولت سے سرفراز فرماتا ہے اسے ضرور
آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ وہ خود فرماتا ہے: ”احسب
الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لا یفتنون(العنکبوت:۲)“ کیا
لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے
اور ان کی آزمائش نہ ہو گی“۔ یعنی ضرور ان ک کی آزمائش ہوگی، تاکہ ان کے ایمان
کا دعویٰ اور اقرار کی حقیقت لوگوں پر آشکار ہو۔آزمائش صرف امت محمدیہ کے مومنین
کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام انبیاے کرام کی امتوں کو اس سے گزرنا پڑا، مگر ان
کی آزمائشوں کے مقابلے میں ہماری آزمائشیں آسان ترہیں۔بخاری شریف میں حضرت خباب
بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ”ایک بار حضور سید عالمﷺ کعبہ
کے سائے میں اپنی چادر سے تکیہ کیے ہوئے تشریف فرماتھے،ہم نے حضورﷺ سے عرض کی کہ
ہمارے لیے کیوں نہیں دعا فرماتے، ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: تم سے
پہلے کے لوگ (انبیا ئے سابقین کی امتیں) گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا
کھود کر اس میں دبا دئیے جاتے تھے، آری سے چیرکر دو ٹکڑے کر دئے جاتے تھے اور
لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے مگر ان میں کی کوئی مصیبت انہیں ان
کے دین سے پھیر نہیں سکتی تھی۔“ سورہئ بقرہ کی
ایک آیت میں اللہ تعالیٰ امم سابقہ کی آزمائشوں کی منظر کشی کرتے ہوئے اور امت
محمدیہ کو ان سے درس عبرت لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے: ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ و لما یاتکم
مثل الذین خلو امن قبلکم مستھم الباساء و الضراء و زلزلوا حتیٰ یقول الرسول و
الذین امنوا معہ متیٰ نصر اللہ الا ان نصر اللہ قریب(البقرۃ:۴۱۲) کیا تم
اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی رو داد نہ
آئی، انہیں سختی پہنچی اور جھنجھوڑ دیے گئے،یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ والے
مومنین کہہ اٹھے کب آئے گی اللہ کی مدد؟، سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ تکلیف و
مشقت بندہ مومن کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت اور باعث رحمت ہے۔ اس کے ذریعہ
بندہئ مومن بہت جلد اللہ کا قرب حاصل کرلیتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ اسی بندہ کو آزمائش میں ڈالتا ہے جس کو اپنا محبوب و مقرب بنانا چاہتا
ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ”قال
رسول اللہ ﷺ من یرد اللہ بہ خیرا یصب منہ“(صحیح البخاری) رسول پاک ﷺ نے
فرمایا”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے آزمائشوں میں
ڈالتا ہے۔ مومن صالح کی آزمائش متعدد طریقوں سے ہوا کرتی ہے۔ کبھی فقر و
فاقہ سے، کبھی آفت و بیماری سے، کبھی دشمنوں کا خوف دلا کر، کبھی ظالم و جابر
حکمراں کو مسلط کر کے اور کبھی جان و مال اور اولاد کو ہلاک کر کے۔ اس قسم کی
آزمائشوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیاہے،۔سورہئ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: |
و لنبلونکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال والانفس و
الثمرات و بشر الصٰبرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوااناللہ و انا والیہ راجعون(البقرۃ:۵۵۱)
اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈراوربھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرناہے۔
حضورﷺ فرماتے ہیں: لا یزال البلاء بالمومن و المومنۃ فی نفسہ و مالہ وفی ولدہ حتیٰ یلقیٰ اللہ تبارک وتعالیٰ و ما علیہ من خطیئۃ (سنن کبریٰ للبیہقی)
مسلمان مردو عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ آزمائش ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ (آزمائشوں پرصبر کرکے)اللہ سے اس حال میں ملاقات کرتاہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
بلا و مصیبت کے وقت اگر بندہ ثابت قدم رہتاہے اور صبر و شکر سے کام لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ خوش ہوکر اس کی پریشانیوں کو دور فرمادیتا ہے اور اسے مزید نعمتوں سے بہرہ ور کرتے ہوئے فلاح دارین کا مژدہ سناتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بندہ ناشکری، بے صبری اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرتا ہے اور تقدیر کا رونا رونے اور اللہ سے شکوہ کرنے لگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے اور اپنی نعمتوں کو چھین کر اس کی پریشانیوں کو دوبالا کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی دنیا وآخرت دونوں کی بھلائیوں سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضورﷺ فرماتے ہیں: ”ان اعظم الجزاء مع عظم البلاء و ان اللہ عز و جل اذا احب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضا ء ومن سخط فلہ السخط“(ابن ماجہ)
یقینا بڑا مرتبہ بڑی آزمائش سے ہے اور بے شک اللہ عزوجل جب کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو اس کو آزماتا ہے اورجواس پر راضی (صابر) ہوتاہے اس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اور جو اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اس سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مومن کو بسا اوقات مصیبتوں میں اس لیے ڈالتا ہے کہ اس کے علم میں بندہ کے لیے کوئی مرتبۂ کمال مقدر ہوتا ہے اور وہ بندہ اپنے کسی عمل سے اس مقام کو حاصل نہیں کرپاتا، لہذا اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا مال یا اولاد پر مصیبت ڈالتا ہے پھر اس کو صبر عطا فرماتا ہے، یہاں تک کہ اسے اس مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے جو اس کے لیے علم الہٰی میں مقدر تھا۔ (مفہوم حدیث) لہٰذا اگر کبھی مومن پر آزمائش کی گھڑی آجائے تو ایسے وقت میں اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ اپنے دین ومذہب پر ثابت قدم رہتے ہوئے حالات کا سامنا کرے اور مصیبت سے چھٹکارہ کے لیے اللہ سے فریاد کرے۔ جو کچھ نقصان ہو اس کو اللہ کی راہ میں قربانی تصور کرے اور اس پر اجر کی دعا کرے۔نیز یہ یقین رکھے کہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ ہمارا جسم، ہماری جان، مال اور اولاد سب کچھ ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے۔ جب تک اس نے چاہا ہم اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے،اب اس نے واپس لے لیا تو تقدیر کا شکوہ کیسا؟ یا د رکھیے!اللہ تعالیٰ کبھی کسی پر اپنی طرف سے کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ صرف اپنی دی ہوئی امانتیں واپس لیتا ہے، لہذا آزمائش کی گھڑی میں بے صبری اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرنے کے بجا ئے صبر وشکر سے کام لینا چاہئے اور اعتقاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا نے ہمیں مصیبت میں ڈالا ہے وہ اسے دور کرنے پر بھی قادر ہے۔
استاذ: دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی، مہراج گنج
اعزازی ایڈیٹر: ''سہ ماہی پیام برکات'' مارہرہ شریف، ایٹہ یوپی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments
Post a Comment