نیپال میں اردو زبان کی تاریخ پس منظر اور پیش منظر ۔قسط اول : از مفتی محمدرضا مصباحی نقشبندی نیپال اردو ٹائمز
بر اعظم وسطی
ایشیا کے جنوب میں دو عظیم ملکوں ہندوستان اور چین کے درمیان ہمالیہ کے آغوش میں
واقع "نیپال" قدرتی حسن و جمال ،دلکش مناظر ،خوبصورت وادیوں، گرتے
آبشاروں اور دور تک پھیلے ہوئے سر بفلک پہاڑوں کے سلسلوں پر مشتمل ایک چھوٹا ملک
ہے جو شمال میں تبت اور چین سے اور جنوب مشرق و مغرب میں ہندوستان سے ملا ہوا ہے ۔
تقریبا چار ہزار
سال کی معلوم تاریخ کے درمیان بہت سی قومیں یہاں آ کر آباد ہوئیں ، بالخصوص نیپال
پر حکومت کرنے والے تمام راجاؤں کا تعلق ان قوموں سے رہا جو ہندوستان جیسے وسیع و
عریض ملک سے ہجرت کر کے نیپال کی طرف آئیں ۔ یہاں کی آبادیوں کو تاخت و تاراج کیا
اور اپنی سلطنت بھی قائم کیں ۔ نیپالی باشندوں میں ایک خاص نسل ان منگولوں کی بھی
ہے جو چائنا کے شمال میں واقع منگولستان سے نکل کر براہ چین نیپال میں آکر آباد ہوئی
۔ جنہیں آج کی اصطلاح میں پہاڑی قوم کہا جاتا ہے ۔ یہ اپنی وضع ، خد و خال ، کشادہ
چہرہ ، چپٹی ناک اور چھوٹے قد کے سبب عام نیپالی شہریوں سے ممتاز ہیں ۔ ان کے اندر
بلا کی جرأت ، شجاعت اور بے خوفی پائی جاتی ہے ۔ ان کی بہادری کے سبب نیپال کی
افواج میں ان کو امتیازی مقام حاصل ہے۔
نیپال عرب تعلقات
:- آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں عرب مسلمانوں کا تجارتی رابطہ نیپال سے براہ تبت
قائم ہو چکا تھا ڈاکٹر
تری لوک چندر مجوریا ، پروفیسر تری بھون یونیورسٹی کاٹھمانڈو اپنی کتاب" Religious In Nepal" میں نیپال عرب تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوے
لکھتے ہیں :
But it is definite that in the 8th century Arabian
Countries wer Aware of Nepal and Nepal was in tuch with the Muslim world
through such businessmen and traders .
یہ بات یقینی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں
عرب ممالک نیپال سے واقف ہو چکے تھے اور نیپال بھی تاجروں اور ساہوکاروں کے ذریعے
مسلم دنیا کے رابطے میں تھا۔ بعض تاریخی مصادر سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ترکستانی
اور افغانی گھوڑے نیپال میں بہت مقبول تھے ۔ عہد وسطی میں بشمول عرب ممالک ،
ترکستان و افغانستان سے نیپال کے اچھے تجارتی تعلقات قائم تھے ۔ جیسا کہ بنگلادیشی
اسکالر شمیمہ صدیقی نے اپنی کتاب "Muslims Of Nepal" میں اس
پہلو کو بہت تفصیل سے روشن کیا ہے ۔ نیپال ہند تعلقات : جس طرح وسطی ایشیا کے
ملکوں سے نیپال کا تعلق قائم ہوا اسی طرح ہمسایہ ملک ہندوستان سے ہزاروں سال سے اس
کے تجارتی ، سیاسی ، سیاحتی ، تعلیمی اور ثقافتی تعلقات قائم تھے ۔ جب تیرہویں صدی
عیسوی کے اوایل میں ہندوستان پر مسلمانوں
کی حکومت قائم ہوئی اسی زمانے میں سلطان شہاب الدین محمد غوری کے عظیم سپہ سالار ،
فاتح بہار و بنگال اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی (م ١٢٠٤ء) کی فوج کا ایک حصہ
تبت سے لوٹتے ہوئے نیپال کے کوہستانی علاقوں میں داخل ہوا۔بختیار
خلجی کے عہد میں نیپال کے بعض صوبہ جات ان کے قلمرو میں شامل ہو چکے تھے ۔ تیرہویں
صدی ہجری کے مؤرخ قاضی سید نور الحسین عظیم آبادی اپنی کتاب آثار شرف مرقومہ ١٢٨٢ ھ/١٨٦٦
ء میں محمد بن بختیار خلجی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں ۔محمد بختیار خلجی در عہد سلطان
غیاث الدین محمد سام بغزنین آمدہ رو
بہندوستان نہاد و بمساعی جمیلہ ملک معظم حسام الدین بعلبک کہ از امراے کبار سلطان
شہاب الدین
A Coin Traced in
Nepal said to have been struck in the name of Alauddin Muhammad Shah Khilji .
(Mediaeval Nepal . Page : 312 _ pub . 2007 firsted 1965)
نیپال
میں ایک سکہ دریافت کیا گیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علاؤالدین شاہ
خلجی کے نام سے ڈھالا گیا تھا ۔یہی بات ان سے پیشرو مورخ L . Petech
نے Mediaeval
History Of Nepal میں لکھی ہے ۔جب اتنی بات تاریخی اطلاعات سے
ثابت ہو گئی تو یقینا اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہندوستانی مسلمان اسی عہد میں
بڑی تعداد میں آکر نیپال کو اپنا دائمی مسکن بنا چکے تھے 06D4
یہ
وہی عہد مہمون تھا جب اردو زبان ہندوستان میں سلطان المشائخ حضرت سیدنا محبوب الٰہی
، سیدنا امیر خسرو اور سیدنا خواجہ محمد گیسو دراز بندہ نواز رضی اللہ عنہم کی
آغوش میں ابتدائی نشو نما پا رہی تھی ۔ جب مسلمان نیپال میں آئے تو اپنی تہذیب ،
ثقافت اور زبانوں کو بھی لے کر آئے ۔ اسی عہد میں منیر شریف بہار سے تعلق رکھنے
والے فردوسی سلسلہ کے ایک عظیم صوفی بزرگ حضرت مخدوم شعیب فردوسی ابن جلال الدین
منیری رحمہما اللہ (ولادت ٦٨٨ھ وفات ٨٢٤ھ) نے مجاہدات کبری کے درمیان نیپال کو
اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا۔
ہندوستانی مہاجرین کی نیپال آمد کا یہ سلسلہ گزرتے دنوں کے ساتھ اور دراز ہوتا رہا ۔ یہاں تک کہ عہد اکبری و جہاں گیری میں گورکھا حکمرانوں نے ہندوستانی مسلمانوں)کو فوجی ساز و سامان ، بندوق ، توپ ، بارود اور زراعتی اوزار بنانے کے لئے یہاں آباد کیا (D.B Bista People Of Nepal Page : 150 3rd ed 1976 کشمیری مسلمان :- اسی طرح کشمیری مسلمانوں کا تعلق نیپال سے پندرہویں صدی عیسوی قبل سے قائم ہو چکا تھا ۔ وہ اپنا تجارتی مال لے کر کاٹھمانڈو آتے اور کچھ دن یہاں قیام کرتے تبت کی راجدھانی لہاسہ کا سفر کرتے ۔ باضابطہ کشمیری تاجروں کی نیپال میں سکونت راجہ رتن مل (١٥٢٠-١٤٨٢ء) کے عہد حکومت میں ہوئی ۔
کاٹھمانڈو وادی ایک زمانے سے سلاطین کا مرکز رہا ہے اس لیے کشمیری تجار کشمیر سے بنے ہوئے خوب صورت کمبلوں ، عطریات اور پھلوں کو لے کر کاٹھمانڈو وارد ہوتے ۔یہ لوگ اچھے موسیقار بھی ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ نیپال کی موسیقی پر اس کا اثر سب سے زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔بلکہ کشمیری تجار نے نیپالی زبان پر سب سے گہرے اثرات مرتب کیے ۔ آج جو ہر جملے میں چھ کا لفظ نیپالی میں استعمال کیا جاتا ہے یہ چھ کشمیری زبان سے آیا ہے ۔
راقم سطور کو نو
مہینے تک کشمیر میں تعلیم حاصل کرنے کا اتفاق ہوا ہے اس دوران ہم
دیکھا ہے ۔ ان کشمیری
مسلمانوں کی زبانیں ، کشمیری ، فارسی اور اردو کا مرقع تھیں اس طرح یہاں اردو زبان
کی داغ بیل پڑی ۔
لاری مسلمان :- کشمیریوں
کے بعد عراقی تاجروں کی ایک جماعت غالبا سترہویں صدی عیسوی میں راجہ پرتاپ مل کے
زمانے میں نیپال وارد ہوئی جس نے بعد میں چل کر یہاں کی تجارت و صنعت میں غیر
معمولی اثر و رسوخ حاصل کر لیا ۔
یہ عراقی مسلمان
جنھیں عام زبان میں لاری بھی کہا جاتا ہے اتر پردیش کے ضلع دیوریا میں واقع قصبہ
"لار" کے مسلمان تاجر تھے ۔
ان
کے تعلقات پالیا کے بادشاہوں سے اچھے تھے ، پالیا کی سرحد گورکھپور سے ملی ہوئی تھی
، بٹول میں جو ان دنوں پالیا راج میں واقع تھا لاری تاجروں کی بڑی دکانیں تھیں ۔ یہی
لاری مسلمان لار سے بیل گاڑی کے ذریعے کپڑا اور کپڑا دھونے کا صابون لایا کرتے تھے
اور انھیں کاٹھمانڈو و بٹول کے بازاروں میں فروخت کرتے ۔ لاریوں نے نیپال سرکار کے
یہاں بڑا اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا معروف تاجر مقبول احمد لاری (ولادت ١٩١٦ء) کے
پردادا شمشاد میاں لاری نے انیسویں صدی کے وسط میں چمڑے کی تجارت کے لیے حکومت نیپال
سے پہلا خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا ۔
الغرض ان تاجر پیشہ
اور مختلف صنعتوں سے وابستہ افراد کے یہاں آ جانے کے بعد نیپال میں اردو زبان و
ادب نے بھی بھر پور انداز میں انٹری کی ۔ یہ لوگ فقط تجارتی مال لے کر یہاں نہیں
آئے بلکہ اپنے ساتھ اپنی زبانیں ، اپنی تہذیبی روایات اور قدروں کو بھی لے کر آئے
جس نے آگے چل کر اس وادی کو جسے پاکستانی ادیب ندیم نیر نے وادی حیرت لکھا ہے ایک
نئی زبان کی دولت سے مالامال کیا وہ ہماری محبوب زبان اردو تھی ۔
اردو کو ہم خالص ہندوستانی زبان کہ سکتے ہیں جو عربی ، فارسی ، ہندی ، ترکی اور برج بھاشاؤں سے مل کر ایک نئی زبان کی شکل اختیار کر گئی ۔اس کی پرورش گاہ کبھی دکن تو کبھی دلی تو کبھی اودھ کا معروف خطہ رہا ۔اردو زبان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کی مکمل پرورش بر صغیر ہند و پاک میں ہوئی پھر یہاں کے باشندے جہاں بھی گئے یہ ان کے ساتھ وہاں ہجرت کرتی رہی ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہ زبان یورپ پہونچی ، جرمنی ، فرانس اور انگلینڈ کی یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی میں اردو خلیجی ممالک سے لے کر افریقہ ، امریکہ اور اسٹریلیا تک پہونچ گئی کناڈا اور امریکہ جیسے ملکوں میں اردو کی بستیاں قائم ہوئیں ۔انہیں نئی قائم شدہ بستیوں میں ایک بستی نیپال بھی ہے جسے اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوں جب ١٨٥٧ء میں انگریزوں نے مکمل طور پر پایۂ تخت دہلی پر قبضہ کر لیا تو اس وقت دو ریاستیں ایسی تھیں جو انگریزوں سے برسر پیکار تھیں ایک شاہ جہاں پور میں محمدی اسٹیٹ جس کے روح رواں مولانا سید احمداللہ شاہ مدارسی (م ۱۵ جون ١٨٥٧ء) تھے دوسری ریاست اودھ کی تھی جس کے حکمران نواب واجد علی شاہ تھے ۔نے اکثر نظر انداز کیا ہے ۔دونوں جگہوں پر مزاحمت کاروں کو انگریزوں کے مقابلے میں پسپا ہونا پڑا ۔ مولانا سید احمداللہ شاہ کو شہید کر دیا گیا ۔ اس کے بعد تقریبا سارے لوگ کچھ امید لے کر قریب ترین پڑوسی اور ہم قوم ملک نیپال چلے آئے انگریزی ذرائع نے ان کی تعداد ایک لاکھ لکھی ہے ۔ پایۂ تخت محمدی سے نیپال آنے والوں میں جنرل عظیم اللہ خان، نانا راؤ ، بال راؤ ، بیگم حضرت محل ، بیگم کے صاحبزادے شہزادہ برجیس قدر اور بیگم کے معتمد خاص ممو خان جیسے رہنمایان قوم تھے ان کے علاوہ سپاہی ،جنرل ، اور عام لوگ تھے ۔ (مآثر دلاوری ، ابرار حسین فاروقی ص ٢٥٦ مطبوعہ ١٩٦٥ء)
اودھ کا دارالحکومت لکھنؤ جسے گزشتہ ایک صدی سے اردو ادب کی پرورش گاہ کی حیثیت حاصل تھی جہاں بڑے بڑے اساتذۂ شعر و ادب کی شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں جب بیگم حضرت محل اور صاحبزادہ برجیس قدر ١٨٥٩ء میں نیپال آئے تو لکھنوی روایات کو ساتھ لے کر آئے اور یہاں بھی اپنے ذوق شعری و ادبی کی تسکین کے لیے شعری مجالس کا اہتمام کرنے لگے اس دور میں برجیس قدر کی شعری مجالس میں نیپال کے جو شعرا شریک ہوا کرتے تھے ان میں سر فہرست خواجہ محمد نعیم الدین بدخشی کاٹھمانڈو ، اخوند امیرالدین واثق کشمیری کاٹھمانڈو اور سرور ہاشمی کاٹھمانڈو کے نام آتے ہیں تفصیل کے لیے دیکھیں (ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ مؤلف ڈاکٹر وصی مکرانی واجدی) حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو نیپال میں اردو کی ترویج و ترقی کا سہرا محمدی اور اودھ سے آنے والے باذوق مہاجرین کے سر جاتا ہے اور ان لوگوں کے سر جو اس عہد میں ان کی مجالس کا حصہ تھے ۔ان کے بعد نصراللہ ظریف ، غلام محمد خانقاہی ، میاں محی الدین احمد ، بھولا ناتھ فلک ، جمال احمد خستہ، خواجہ محمد حسن شاہ نیازی (١٩٠٧-١٩٨١) ظہیر لکھنوی ، کھڑک مان سنگھ اور خواجہ معظم شاہ نیازی نے اس کی آبیاری کی (نیپال میں اردو ادب - نسیم احمد نسیم )دوسری طرف بیسوی صدی کے اوائل سے ہی ہمیں نیپال کے طول و عرض میں مدارس اسلامیہ کا بچھتا ہوا جال نظر آتا ہے ۔ بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر اواخر تک سیکڑوں کی تعداد میں مذہبی جامعات ، دارالعلوم اور مدارس کی بنیادیں رکھی گئیں ۔ ان سب کا ذریعۂ تعلیم اردو تھی ۔ ان شعرا و ادبا کے بعد اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار مدارس اسلامیہ کا ہے ۔ شعر و ادب کو فروغ دینے میں خارجی محرکات اور عوامل تھے جو رفتہ رفتہ ماند پڑ گئے لیکن مدارس کے ذریعے اردو کی ترویج و اشاعت کا جو انقلاب آیا وہ خالص داخلی تھا وہ بیرونی تحریک کے زیر اثر نہیں تھا ۔
نیپال میں اردو کے
فروغ کا تیسرا دور
نیپال میں اردو کو
ہم تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ۔
پہلا دور: تو
وہ ہے جب فارسی زبان کے ساتھ مخلوط ہو کر اردو مبلغین اسلام ، صوفیہ ، علما اور
حکام و سلاطین کے ذریعے یہاں پہونچی یہ دور چودہویں صدی عیسوی سے لے کر ١٨٥٧ء تک
کا دور ہے ۔
دوسرا دور :بیگم
حضرت محل کے نیپال ہجرت کرنے کے بعد سے لے کر ١٩٧٠ء تک کا ہے جب کہ اردو زبان فارسی
و عربی سے ممتاز ہو کر خالص ایک شعری و ادبی زبان کے طور پر بولی جانے لگی ۔ اس
عہد میں نیپال کے تناظر میں زبان مکمل طور پر جوان ہوئی ۔
تیسرا دور وہ ہے
جب نیپال میں اردو صحافت کا آغاز ہوا اور اردو رسائل و جرائد ، میگزینوں اور
اخبارات نے اس کی وسعت کو میچی سے مہاکالی تک پہنوچا دیا ۔
علما ، شعرا ،
ادبا ، ناقدین اور سیرت نگاروں نے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ اردو کو بنایا ۔
فقہ و فتاوی ، حدیث و تفسیر کی کتابیں اردو میں لکھی جانے لگیں۔
جاری۔۔۔۔
Comments
Post a Comment