فلسطین ،غزہ اسرایل جنگ،مشرق وسطی میں اسرایل کی بڑھتی جارحیت اور عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی ( نیپال اردو تائمز ) NEPAL URDU TIMES
سربراہ اعلیٰ علما کونسل نیپال
بلا
شبہ اس روے زمین پر چند خطے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دیگر خطہاے عرضی سے
ممتاز فرمایا اور درجنوں فضیلت بخشی ہے۔ ان پر اپنی خاص انوار و تجلیات نازل
فرمائیں ہیں اور ہر لمحہ اس کی تجلیات کی بارش وہاں ہوتی رہتی ہے ان مقدس زمینوں
میں ایک زمین فلسطین کی بھی ہے، یہیں روے زمین کی دوسری سب سے پہلی عبادت گاہ
بنائی گئی۔ انسانوں کی عبادت کے لیے جو گھر سب سے پہلے تعمیر ہوا وہ مکہ میں مسجد
حرام ہے اس کی تعمیر فرشتوں کے ذریعے تخلیق آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال قبل
ہوئی اور اس کے ٹھیک ۴۰سال بعد دوسری
عبادت گاہ فلسطین کی سرزمین پر مسجد اقصی کی شکل میں ہوئی۔ صحیح بخاری میں حضرت
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام، میں نے عرض کیا: اس کے بعد فرمایا مسجد اقصی۔
مسجد اقصی وہ مقام ہے جس کے ارد گرد اللہ تعالی نے برکت رکھی ہے۔ یعنی یہ مبارک
سرزمین ہے۔
برکت والی سرزمین !
یہ
برکت والی سرزمین کیوں ہے؟ اس کی صراحت حدیث پاک سے ہوتی ہے کہ مسجد اقصی کے ارد
گرد بکثرت انبیاء کرام مدفون ہیں۔ ہزاروں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کی
قبریں اس مسجد کے ارد گرد علاقے میں واقع ہیں ان کے ہمیشہ کے لیے اس زمین میںمدفون
ہو جانے کی وجہ سے یہ سرزمین مبارک سرزمین ہو گئی۔( الذی بارکنا حولہ) لہذا ہر لمحہ یہاں انوار و تجلیات کا چشمہ بہنے
لگا ۔ اور اسی مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے مسلمانوں نے ۱۶ یا ۱۷مہینے تک تمام نمازیں ادا کیں۔
جغرافیہ:
محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم جنوب ایشیا
کے مغرب میں بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے اس کے شمال میں لبنان اور جنوب
میں خلیج عقبہ واقع ہے، جنوب مغرب میں اس کی سرحدیں مصر اور مشرق میں شام اور اردن
سے ملی ہوئی ہیں جبکہ مغرب میں بحر متوسط کی طویل ساحلی پٹی ہے۔ اس کا رقبہ ۲۷۰۲۴ مربع کلومیٹر ہے فلسطین میں چار صوبے ہیں:
غزہ، قدس، السامرہ اور حیفا جبکہ بیت المقدس، بیت اللحم،رام اللہ، غزہ، نابلس،
دیرالبلح، خان یونس، حیفا، یا فا، حی شجاعیہ، حی رضوان، حی جبالیہ اس کے مشہور شہر
اور قصبات ہیں۔
قبیلہ شام کی ایک شاخ جو کنعانی کہلاتی تھی ۲۵۰۰قبل مسیح عرب کی سرزمین سے ا ٓکریہاں آباد
ہوئی پھر آج سے تقریبا ۴؍ہزار سال قبل
حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت فرما کر براہ مصر یہاں تشریف لائے اور
مستقل طور پر سکونت پذیر ہوئے اسی لیے یہاں آپ کی طرف نسبت کرتے ہوے ایک شہر الخلیل نامی بھی آباد ہے۔
مسجد اقصی کی تعمیر اپنے زمانے میں حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے فرمائی اس لیے اسے قدس خلیل بھی کہا جاتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی اولاد میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل یہیں آباد ہوئی ان کی نسل میں
حضرت یعقوب حضرت یوسف حضرت داؤد حضرت سلیمان حضرت زکریا حضرت یحیی حضرت موسی اور حضرت
عیسی علیہ الصلاۃ والتسلیم اسی خطے میں پیدا ہوئے اسی لیے بجا طور پر اسے ارض
الانبیاء کہا جاتا ہے۔
اس شہر کا نام’’ یروشلم‘‘ کیسے
پڑا؟
حضرت طالوت علیہ السلام نے۱۰۰۴
قبل مسیح سے۱۰۲۰ ق،م تک یہاں حکومت کی ان کی، وفات کے بعد
حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے انہوں نے پہلے الخلیل پھر بیت
المقدس میں اپنا دارالسلطنت قائم کیا آپ نے ۱۰۰۴
قبل مسیح سے ۹۶۵قبل مسیح تک حکمرانی کی، بعد ازاں حضرت
سلیمان علیہ السلام نے ۹۶۵ قبل مسیح سے ۹۲۶ قبل مسیح تک بادشاہت فرمائی اور آپ کا
پایۂ تخت یروشلم رہا ،اس شہر کا نام یروشلم حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھا تھا۔
پھر شہر کا نام’’ فلسطین‘‘
کیسے پڑا ؟
۵۹۸قبل
مسیح میں بابل( عراق )کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو
فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۳۳۲قبل
مسیح میں سکندر یونانی نے یروشلم پر قبضہ کر لیا ۱۶۸قبل
مسیح میں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل میں آیا لیکن ایک صدی کے اندر اندر
رومیوں نے اسے زیر نگیں کر لیا ۱۳۵سے ۷۰ قبل مسیح میں یہاں یہودیوں نے زبردست بغاوت
کر دی جسے بزور قوت کچل دیا گیا اسی عہد میں اس کا نام فلسطین پڑا۔
فتح
بیت المقدس
ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں رومیوں کو زوال
ہوا اور مسلمان جزیرۃ العرب میں ایک غالب قوت بن کر ابھرے اور انہوں نے آس پاس کے
علاقوں کو فتح کرنا شروع کر دیا ۔عہد خلفائے راشدین میں عراق شام اور مصر کے
علاقےمفتوح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوئے۔ ۱۵
ہجری ۶۳۷عیسوی وہ سال ہے جب حضرت سیدنا عمر رضی
اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بغیر کسی جنگ کے یہ پورا علاقہ اسلامی خلافت کے زیر
نگیں آگیا۔
حضرت
عمر کے فتح بیت المقدس سے پہلے یہ پورا خطہ عیسائیوں کے کنٹرول میں تھا حتی کہ
یہودیوں پر مسجد اقصی میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جب مسجد اقصی
مسلمانوں کے کنٹرول میں آئی تو یہودیوں کو بھی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی،
یہودیوں سے بغض کی وجہ سے عیسائیوں نے اس چٹان کو جسے القبۃ الصخرہ (Dom of
rock) کہا جاتا ہے کچڑوں کے ڈھیرو سے چھپا دیا تھا ،کیونکہ یہودی اسے
مقدس مانتے تھے، اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا
کیونکہ یہی وہ چٹان ہے جس پر کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آسمان
کی طرف شب معراج عروج فرمایا، اگلی پانچ صدیوتک اس علاقے کا کنٹرول اموی عباسی اور
فاطمی(مصر) خلافتوں کے ماتحت رہا۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ۱۵؍جولائی ۱۰۹۹عیسوی
میں
فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ
انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے
خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت کی لہر پیدا ہوئی اور یہودیوں پر مظالم کا دور شروع
ہوا ان حالات میں عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آ کر یہودیوں نے نقل مکانی کی۔ جرمنی
،مشرقی یورپ اور روس سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی بے گھر ہوئے اور ان کی بڑی
تعداد برطانیہ، امریکہ منتقل ہوئی اور کچھ فلسطین میں آگئ اسی دوران صہیونیت (zionism)
کی تحریک شروع ہوئی جس کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک مستقل ملک قائم کرنا تھا اور اس
کے لیے انہوں نے فلسطین کا انتخاب کیا۔
سلطنت عثمانیہ کے آخری زمانے میں بڑی
تعداد میں یہودی یہاں ا ٓکر آباد ہونے لگے ،یہاں کی زمینیں خریدنے لگے۔ پہلی جنگ
عظیم(۱۹۱۴۔۱۹۱۸)میں
سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے
عثمانیہ سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا اور اس کے بہت بڑے مقبوضات پر برطانیہ کا قبضہ
ہو گیا جس میں فلسطین بھی شامل تھا۔
۱۹۴۷ءمیں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان
کیا جسے اعلان بالفور(Balfour Declaration)کہا جاتا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ
فلسطین میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا ۔۱۹۴۷ءمیں اقوام متحدہ نے
فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے مغربی فلسطین جہاں
یہودیوں کی اکثریت ہے وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی فلسطین میں
فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم کریں، جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول
میں رہے یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمان اور عرب ملکوں
نے اپنے بیچ کسی یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا بالآخر ۱۴؍ مئی
۱۹۴۸ءکو امریکہ اور یورپین ممالک کی مداخلت سے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر
دیا گیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام
کابھی اعلان کر دیا جاتا مگر ایسا نہ ہو سکا اس کے بعد وقفے وقفے سے طویل جنگوں کا
نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر
حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا ،اس حملے میں برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کا
ساتھ دیا۔
پھر۵؍ جون۱۹۶۷ ءکو چھ روز ہ عرب۔ اسرائیل
جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ میں اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر
دوبارہ قبضہ کر لیا۔مشرقی یروشلم ،شام کی گولان پہاڑیاںاور غرب اردن کے علاقے پر
قبضہ کرلیا۔ ۱۰؍جون ۱۹۶۷ءکو اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ۔
نوٹ: ان صفحات میں مذکورہ تاریخی حوالے
زیادہ تر ویکیپیڈیا سے لیے گئے ہیں۔ الغرض قیام ریاست صہیون سے لے کر اب تک اسرائیل نے مسلمانوں کی اسی
فیصد زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ خود مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر
چکاہے۔
تاریخ انسانی کی ذلیل و خوار قوم
یہودی تاریخ انسانی میں وہ ذلیل و خوار قوم ہے
جسے اس کے سازشی دماغ اور مکار فطرت نے ہر جگہ رسوا کیا، عہد فاروقی میں خیبر سے
نکالے گئے اور بیسویں صدی میں جرمنی کے تانا شاہ اڈولف ہٹلر(۱۸۸۹۔۱۹۴۵) نے مشہور
روایت کے مطابق ۶۰؍ لاکھ یہودیوں کو جلا دیا یا قتل کر دیا اس کو تاریخ انسانی میں
ہولو کاسٹ(Holocaust
)کہا جاتا ہے جس کا معنی ہوتا ہے: مکمل جلا دینا۔ ہٹلر کے بارے میں یہ بات مشہور
ہے کہ اس نے جرمنی میں بسنے والے ۹۰؍ فیصد یہودیوں کو زندہ جلا دیا اور ۱۰؍فیصد کو
اس لیے چھوڑ دیا تاکہ دنیا کو یہ سمجھ میں آجائے کہ ہم نے ۶۰؍لاکھ یہودیوں کو
کیوں ختم کیا ہے۔آج غزہ کے مسلمانوں پراسرائیل کی وحشیانہ بمباری، شیر خوار بچوں
اور عورتوں کے قتل عام، فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی کو دیکھ کر دنیا کو اندازہ ہو
چکا ہوگا کہ اس ذلیل و خوار قوم کے ساتھ تانا شاہ ہٹلر نے جو کچھ کیا وہ غلط نہیں
تھا۔
غزہ اسرائیل جنگ:
اس
وقت دنیا تاریخ انسانی کی انتہائی بدترین سفاکیت اور ظلم و جبر سے بھرے دور سے گزر
رہی ہے، جہاں انسانیت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳کو فلسطین میں مسلح
تنظیم’’ حماس‘‘ کی طرف سے طوفان الاقصی کے نام سے اسرائیلی ریاست پر میزائل حملوں
کے بعد اسرائیلی ریاست کی طرف سے وحشت و بربریت کا جو ننگا ناچ غزہ کی سرزمین پر
ہو رہا ہے اور جس طرح اسرائیلی درندہ فوجیں نہتے بچوں، عورتوں اور شہریوں کو قتل
کر رہی ہیں، اس کے بمبار طیارے رہائشی مکانوں ،مساجد ،چرچ اور ہاسپٹلوں کو نشانہ
بنا کر ملبوں کے ڈھیروں میں تبدیل کر چکے ہیں ان کارروائیوں سے انسانیت کا سر شرم
سے جھک جاتا ہے۔ صیہونی افواج مسلسل جارحیت اور در اندازی کرتی آرہی ہیں، جبرا ً مسلمانوں
کا انخلا کروا کر نئی نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کر رہی ہیں۔رپورٹوں کے مطابق
حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں ۲۱؍ ہزار فلسطینی جان بحق جبکہ ایک لاکھ سے زائد مکانات
بشمول طبی مراکز، رہائشی عمارات، اسکولز اور عبادت گاہیں منہدم کی جا چکی ہیں
۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ۶۳؍روز غزہ
اسرائیل جنگ میں چار سے پانچ ایٹم بموں کے برابر بارودی مواد گرایا جا چکا ہے۔ اس
کرب ناک حالت کو دیکھ کر پوری انسانیت چیخ و پکار کر رہی ہے خود اسرائیل میں،
امریکہ ،برطانیہ اور یورپین ملکوں میں اسرائیلی سفاکیت، بربریت اور نیتن یاہو کے
خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں مگر امریکہ اور اسرائیل کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگتے۔
صیہونی افواج مسلسل جارحیت اور در اندازی کرتی آرہی
ہیں،جبرا ًمسلمانوں کا انخلا کروا کر نئی نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کر رہی ہیں۔
رپورٹوں کے مطابق حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں ۲۱؍
ہزار فلسطینی جان بحق جبکہ ایک لاکھ سے زائد مکانات بشمول طبی مراکز، رہائشی
عمارات، اسکولز اور عبادت گاہیں منہدم کی جا چکی ہیں ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ۶۳؍روز
غزہ اسرائیل جنگ میں چار سے پانچ ایٹم بموں کے برابر بارودی مواد گرایا جا چکا ہے۔
اس کرب ناک حالت کو دیکھ کر پوری انسانیت چیخ و پکار کر رہی ہے خود اسرائیل میں،
امریکہ ،برطانیہ اور یورپین ملکوں میں اسرائیلی سفاکیت، بربریت اور نیتن یاہو کے
خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں مگر امریکہ اور اسرائیل کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگتے۔
۶۳؍
دنوں سے پورے غزہ کو ایک کھلے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں غذا، ادویات، پانی
ایندھن ،بجلی، انٹرنیٹ اور ہاسپٹل کی تمام سہولتیں چھین لی گئی ہیں۔ روزانہ
امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کے جنگی طیارے سینکڑوں کی تعداد میں پرواز
کرتے ہوئے تمام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔جتنا انسانی جانوں کا نقصان
افغانستان کی ۲۲؍سالہ جنگ میں نہیں ہوا اس سے زیادہ نقصان، جان و مال کی تباہی اس
دو مہینے کی جنگ میں ہو چکی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ امن اور سلامتی کے علمبرداران
سپر پاور طاقتیں اسرائیل کی اس درندگی اور جارحیت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی بلکہ
وہی س جنگ کی قیادت بھی کار رہی ہیں۔
روس ہو یا چین کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ اس جنگ
کو بند کروا سکیں نیٹو کے سارے ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یورپی
یونین اور امریکہ اگر اسلام اور مسلمانوں سےدشمنی کا بدلہ نکال رہا ہے تو یہ کوئی
حیرت کی بات نہیں ہے، افسوس اور حیرت اس
وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب اسلام کا نام لینے والے، نبی کا کلمہ پڑھنے والے اور
اسلامی دنیا کے لیے لیڈر بننے والے سربراہان مملکت امریکہ بہادر کے سامنے ہاتھوں
میں چوڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ چکے ہیں کہ کہیں ہمارا آقا ناراض نہ
ہو جائے ۔ماتم ہے عرب ملکوں پر، ماتم ہے ۵۷؍مسلم ملکوں کے بلاک پر، افسوس ہے اس
اسلامی اتحاد پر جس کے پاس ۵۸؍ لاکھ افواج ہیں، تمہارا دنیا کے لیے بطور مسلم
ملکوں کے موجود رہنے سے بہتر تھا کہ تم موجود ہی نہ ہوتے ،جب تم اپنی ماؤں، بہنوں
،بیٹیوں، بچوں اور بھائیوں کا تحفظ نہیں کر سکتے، جب تم قبلۂ اول کی حفاظت نہیں
کر سکتے، جہاں پر تمہارے اور ہمارے نبی نے تمام انبیاء کو مسجد اقصی میں نماز
پڑھائی تھی۔
یہ
جتنے مسلم ممالک ہیں کچھ بالواسطہ تو اکثر بلاواسطہ امریکہ کے زرخرید غلام ہیں،
جنہیں اپنی سلطنت اور تجارتی تعلقات کی پرواہ ہے اسلام اور مسلمانوں کی نہیں۔ کیا
ہو گیا ان عربوں کی غیرت و جواں مردی کو جو امریکہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے
نکالنا نہیں چاہتے۔ سب سے زیادہ افسوس ترکی، ایران اور پاکستان پر ہے جو عسکری
اعتبار سے دنیا کے طاقتور ملکوں میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی مصلحت کی چوڑیاں
پہن لی ہیں یا بزدلی نے ان کو گھیر رکھا ہے۔ ظلم کا خاتمہ طاقت کے بغیر ممکن نہیں
زبانی قراردادوں، مذمتوں اور ہر کام میں
ڈپلومیٹک راستہ نکالنے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ معاملہ اب مذمتوں اور ڈپلومیٹک
صلح و مصلحت سے بہت اوپر جا چکا ہے ظلم کے خاتمے کے لیے بھی طاقت کا توازن ضروری
ہے۔ ظلم کا خاتمہ طاقت کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لیے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو
حکم دیا ہے:
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ
قُوَّةٍ وَ مِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ
وَعَدُوَّكُمْ وَأَخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ
ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے لیے جتنی قوت ہو
سکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں
اور اپنے دشمنوں کو اور جو ان کے علاوہ ہیں انھیں ڈراؤ۔
ایران کی بات کیا کریں جس نے بیچ منجدھار
میں لا کر حماس کو تنہا چھوڑ دیا اور غدر
و فریب کی پرانی روش کو تازہ کر دیا۔ جنگ کے شروع میںاس کا وزیر خارجہ امیر
عبداللہیان نے نہ جانے کتنے ملکوں کا دورہ کیا ،مسلم ممالک کو متحد کرنے کے لیے
مگر بہادر امریکہ نے آنکھ دکھائی اور لالچ دے دی کہ ہم تمہارے اوپر لگی ساری
پابندیاں اٹھا دیں گےتو اس نے بھی خاموشی اختیار کر لی یہ ہے بیچ منجدھار میں چھوڑ
دینا ۔اگر ایران یہ سمجھتا ہے کہ جنگ کی آگ ان تک نہیں پہنچے گی تو یہ اس کی خود
فریبی ہے۔
ترکی اور ایران شروع سے ہی دھمکی دے رہے
تھے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں زمینی آپریشن شروع کیا تو ہم اپنی فوج غزہ میں
داخل کر دیں گے۔ کہاں ہے ترکی اور ایران کی فوجیں جو غزہ میں بمباری کو روک سکتی
نہیں؟ ان سب کے کھوکھلے دعوے کی
بیچ
کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو۔
بے غیرت مسلم
حکمرانو!
تم نے اپنی تمام توانائیاں، قدرت کا عطا کیا ہوا
تیل،پٹرول اور گیس کی بے انتہا دولت کا استعمال فقط اپنا عیش محل بنانے میں صرف
کیا، تم برج الخلیفہ، مکہ کلاک ٹاور اور نیوم سٹی(Neom City)
بنانے میں مصروف ہو، تم بزدل ہو چکے ہو، تم قلعۂ اسلامی کی حفاظت کرنے کے اہل ہی
نہیں ہو عنقریب زوال تمہارا مقدر بننے والا ہے۔ یاد رکھو ہر عروج کے لیے زوال ہے
،ہر بلندی کے لیے پستی ہے۔نہتے فلسطینی مسلمان یقینا اس آزمائش میں کامیاب اور
ثابت قدم ہیں، ان کی ایمانی قوت کے سامنے دنیا کی کوئی سپر پاور طاقت نہیں ٹھہر
سکتی، ان کے خود ساختہ دیسی ٹیکنالوجی کے مارٹر گولے آہنی ٹینکوں کے پراخچے اڑا
رہے ہیں۔ یہ ان کےلیے تو اللہ تعالی کی بہت بڑی مدد ہے۔
اے پوری دنیا میں بسنے والے دو ارب
مسلمانو! کیا فلسطین کے نہتے بچوں، بچیوں
اور عورتوں کی چیخ و پکار تمہیں سنائی نہیں دیتی ؟کیا تم سے ان جانوں کی شہادت پر
باز پرس نہیں ہوگی؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم بچ جاؤ گے؟ ہرگز ہرگز نہیں!
کیا مسجد اقصی کی حفاظت فقط بے یار و مددگار
نہتے فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے؟ کیا قدس کی حفاظت کے لیے فرشتوں کی فوج اترنے کا
تم انتظار کر رہے ہو؟ فرشتے آئیں گے مگر
پہلے تمہیں نکلنا ہوگا اللہ کی مدد آئے گی مگر بدر کی تاریخ تمہیں دہرانی پڑے گی۔
گریٹر اسرائیل (Greater
Israel)کا قیام
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم میں گریٹر
اسرائیل کا قیام شامل ہے وہ غزہ پٹی سے مسلمانوں کا انخلا چاہتا ہے اور ان
مسلمانوں کو مصر کے صحرائے سینا میں بسانا چاہتا ہے تاکہ غزہ سے نہر بن غریون نکال
کر اس کو بحر احمر سے ملا سکے ،وہ آئندہ منصوبے کے مطابق غزہ کو ختم کر کے، زیر
زمین سرنگوں کا بہانہ کر کے، طاقتور ایٹمی دھماکوں سے زمین کو پھاڑ کر نہر سویز کی
طرح ایک نہر نکالنا چاہتا ہے، اس کے بعد اسے نہر سویز کی ضرورت نہیں پڑے گی اس کے
تجارتی قافلے خود اس کی سرزمین سے روانہ ہوں گے اس پلان کے بعد وہ اردن، شام ،یمن
،کویت اور صحرائے سینا کو قبضہ میں لیتے ہوئے عراق کے دجلہ و فرات کو اپنے کنٹرول
میں لے گا پھر حجاز مقدس میں خیبر تک کہ علاقے پر قبضہ کرے گا اور ان خطوں میں
عظیم اسرائیلی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرے گا۔
اب ہمارا ہدف
مدینہ ہے
اس بات کی توثیق داوید بن گوریون ( David Bin
Gurion) اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیر اعظم کی اس گفتگو سے ہوتی ہے جو
اس نے ۱۹۶۷ عیسوی کی عرب اسرائیل جنگ میں فتح کے بعد
یہودی افواج قدس میں داخل ہونے کے بعد کہا
تھا:’’لقد استولینا علی القدس و نحن فی طریقنا إلی یثرب‘‘یعنی ہم نے مسجد
اقصی پر قبضہ کر لیا اب ہمارا ہدف مدینہ ہے۔( دیکھیے: السیرۃ النبویہ ڈاکٹر علی
محمد صلابی ۲۲۹)
سعودیہ
عربیہ کی موجودہ حکومت کے ذریعے ۵۰۰؍بلین(
ارب) ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا جدید ٹیکنالوجی سےآراستہ نیوم سٹی(Neom City)
اسی دجالی منصوبے کا ایک بڑا حصہ ہے، جس کت لیے بھرپور طریقے پر اسرائیل نے فنڈنگ
کی ہے۔
آل سعود کی حقیقت
مسلمانوں کی اکثریت اس خوش فہمی میں ہے کہ آل
سعود جو غاصبانہ طور پر حجاز مقدس پر قابض ہو چکی ہیں یہ خادم الحرمین الشریفین
ہیں یا مسلمانوں کا حکمران ہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے یہ دراصل یہودی عرب ہیں جنہوں نے بزور قوت
عربوں کو شکست دے کر آل سعود حکومت کی بنیاد رکھی موجودہ یہودی اور سعودی میں فقط
نام کا فرق ہو سکتا ہے ان کے اندر اسلام پسندی یا اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی
ہوتی تو یہود و نصاری کو ہرگز دوست نہ بناتے، یہود و نصاری کے عزائم کو مشرق وسطی
میں جس نے سب سے زیادہ پورا کیا ہے اس کا نام سعودی عرب ہے، اس نے توسیع حرم کے
نام پر تمام آثار مقدسہ کو بلڈوز کرایا، اہل بیت نبوت اور صحابہ کی قبروں کو
مسمار کیا، مولد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کیچڑ کے ڈھیر میں تبدیل کیا،
سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر مبارک کو اکھا ڑ کر پھینک دیا اگر اسے دنیا
بھر کے مسلمانوں بالخصوص ہندو پاک کے مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل کا یقین نہ
ہوتا تو کب کا روضہ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مسمار کر چکا ہوتا اس لیے
اہل سنت وہ جماعت پر عوام ہو یا خواص، بالخصوص سربراہان مملکت پر فرض ہو چکا ہے کہ
وہ قدس اور غزہ کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
او آئی سی کا
اجلاس اور زبانی مذمتوں کا دور
اگر سعودی عرب کو فلسطین اور مسجد اقصی کی فکر
ہوتی تو وہ فقط او آئی سی(OIC) کی اجلاس نہ بلاتا، زبانی مذمت نہ کرتا
بلکہ عملی کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کی فوج غزہ اور اقصی کی حفاظت کے لیے
اتارتا، اس کا زبانی مذمتوں پر اکتفا کرنا اس کی منافقت کا بین ثبوت ہے۔ مجھے حیرت
ہوتی ہے جب ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک اقوام متحدہ سے جنگ بندی کا مطالبہ
کرتے ہیں اور فلسطین کی آزادی کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے جانے
کی بات کرتے ہیں، یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ عمل ہے ان کو پتہ نہیں کہ
اقوام متحدہ کس کی لونڈی ہے؟ کس نے اسے یورپین، امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے
قائم کیا ہے؟ آج تک اقوام متحدہ نے دنیا
کے کسی مسئلے کو سلجھایا ہو تو بتایا جائے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا، اقوام
متحدہ نے الجھا کر رکھا ہوا ہے۔
مسلمانوں کی اقوام
متحدہ
اب تو مسلم حکمرانوں کو ہوش آ جانا چاہیے، آنکھیں کھل جانی چاہیے، تم اپنی اقوام متحدہ خود کیوں نہیں بنا لیتے؟ تمہاری اقوام متحدہ مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمانوں اور قوموں سے تشکیل پاتی ہے، تمہاری اقوام متحدہ ۵۷؍اسلامی ممالک ہیں تم ان کے ساتھ دوستی کرو ،ان کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھاؤ، ان میں جو کمزور ہیں انہیں عسکری اور مادی طور پر مضبوط کرو، یہی مشکل وقت میں تمہارے لیے اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں ۔کیا تم نے یمن کے ان حوثیوں کو نہیں دیکھا جو اپنی عسکری اور مادی قوت کی پرواہ کیے بغیر فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر رہے ہیں۔ شام و یمن میں امریکی مفادات کو زک پہنچا رہے ہیں۔ اے مسلمانو! تمہاری اقوام متحدہ وہ ہے جو اللہ نے بنائی ہے اور حج کی شکل میں اسے پریکٹیکل کر کے دکھایا ہے۔ جب پوری دنیا کے مسلمان فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے مکۃ المکرمہ میں ایک لباس میں ایک وضع پر اور ایک ہی کیفیت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ نہ کالے کا فرق ہے نہ گورے کا، نہ عرب کا نہ عجم کا، مساوات انسانی کا یہ عالم ہے کہ ایک بادشاہ بھی اسی لباس میں ہے جس میں ایک عام شہری ہے۔ شاہ وگدا کا فرق تمہارے لیے ہے لیکن خدا کی بادشاہت کے سامنے تم سب اس کے بندے ہو تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں، پوری دنیا کے مسلم حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ حج کے موقع پر جمع ہوتے اور مسلم ورلڈ کے مسائل ان کے دفاعی امور پر بات چیت کرتے
پٹرول کی قوت کا
استعمال مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور دفاعی تیاریوں کے لیے کرتے۔ مگر افسوس کہ
ایسا نہ ہو سکا ،مملکت خدادادپاکستان کو اللہ تعالی نے کون سی نعمت نہیں دی ،بہترین
دماغ ،اعلی صلاحیتوں کے حامل افراد اسے ہر دور میں ملتے رہے پوری مسلم دنیا میں سب
سے طاقتور فوج اور مضبوط دفاعی نظام اس کے پاس ہے مگر وہ اپنی خانہ جنگی میں اس
قدر الجھا ہوا ہے یا منصوبہ بند طریقے پر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اس خون چکا حادثے
پر اف بھی نہ کر سکا، جب بھی تم اسلام کو چھوڑ کر یہود و نصاری کی روش پر چلو گے
تو یہی حال ہوگا ۔بقول ڈاکٹر اقبال:
غلط
روی سے منازل کے بعد بڑھتے ہی ں
مسافر و! روش کارواں بدل ڈالو
جگا
جگا کہ تمہیں تھک چکے ہیں ہنگامے نشا ط و لذت خواب گراں بدل ڈالو
سفینہ اپنا کنارے سے لگ بھی سکتا ہے ہوا کے رخ پہ چلو بادباں بدل
ڈالو
آئی
ایم ایف(IMF) کا معاشی جال اور مسلم ریاستوں کا مستقبل
آج تمام مسلم ممالک الا ماشاء اللہ آئی ایم
ایف(IMF)
بینک کے پنجوں میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں یہ آئی ایم ایف(International
monetary found)کیا ہے؟ یہ ایک عالمی سطح کا معاشی ادارہ
ہے(international
financial institution) جس
کا قیام ۲۷؍دسمبر ۱۹۶۷ءکو
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرزمین پر عمل میں آیا اور جس کا ہیڈ کوارٹر’’
واشنگٹن ڈی سی‘‘ (Washington
D.C )میں رکھا گیا اس وقت دنیا کے ۱۹۳؍ممالک
اس کے ممبرز ہیں۔
یہ ادارہ ضرورت مند ملکوں کو معاشی و عسکری ترقی
کے لیے اپنی شرائط کے ساتھ فنڈ فراہم کرتا ہے جس میں اس کا بھاری انٹرسٹ بھی شامل
ہوتا ہے، وہی ممالک اس کے فنڈ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کی شرطوں کو پوری
کریں، امریکہ اور یورپین مفادات کے حق میں کام کریں، اس کا مکمل کنٹرول امریکہ اور
اسرائیل کے پاس ہے اب جو مسلمان ممالک اس قرضہ کے شکنجوں میں جکڑ چکے ہیں وہ
امریکی اور اسرائیلی مفادات کے خلاف عملی اقدامات کیسے کر سکتے ہیں؟
یہ ارادہ بھی ایک خاص پلاننگ کے ساتھ قائم کیا
گیا اور پوری دنیا میں معاشی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا گیا۔
غریب ملکوں کو قرضے دے دے کر معاشی غلام بنایا گیا اور مسلم حکمران اپنی شاہ خرچی
اور غیر معمولی عیاشانہ زندگی گزارنے کے لیے اس طرح کے قرضے لینے پر مجبور ہوئے
۔اس کی زندہ مثال مملکت خداداد پاکستان ہے کہ وہ اس وقت آئی ایم ایف کے قرضوں میں
سرتاپا غرق ہے اور اس کے بدلے میں امریکی آقاؤں کے ہر حکم ماننے کے لیے سربسجود
۔جس کا نظارہ تقریبا تینسالوں سے ہم پڑوسی ملک میں کر رہے ہیں ۔
امریکہ
بہادر جب چاہتا ہے مسلم ملکوں کے اثاثوں کو منجمد کر دیتا ہے، اس صورت حال کا ذمہ
دار کون ہے؟ اس صورت حال کے ذمہ دار ہرگز ہرگز مغربی ممالک یا امریکہ نہیں ہے بلکہ
یہ خود مسلمانوں کی بوئی ہوئی کاشت ہے اور اگر یہ چاہتے تو خود اپنا ورلڈ مسلم
بینک قائم کر لیتے اور جس کو چاہتے قرض فراہم کر سکتے تھے۔ گیس، پٹرول اور تیل کے۷۰؍ فیصد ذخائر مسلمانوں کے پاس ہیں لیکن
افسوس ہے کہ ان وسائل کا استعمال کبھی بھی مسلمانوں کی مجموعی دینی ،سیاسی، معاشی،
عسکری اور علمی ترقی کے لیے نہیں کیا گیا۔
آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے
ذمہ دار خود مسلمان اقوام ہیں کوئی دوسری قوم نہیں ۔اللہ تعالی مسلمان عوام اور مسلم
حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ، ہوش کی دنیا میںآنے کی توفیق دے۔
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب
مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
۲۲؍جمادی الاولی ۱۴۴۵
ھ ۷؍دسمبر ۲۰۲۳ء
نوٹ: یہ مضمون آج سے دس ماہ قبل لکھا
گیا تھا ،موجودہ حالات کے تناظر میں اسے دوبارہ نشر کیا جا رہا ہے۔
Comments
Post a Comment