علمائے کرام اور ان کی پہلی ذمہ داری
از قلم: محمد ارشد رضا امجدی
ممبرعلماء کونسل نول پراسی نیپال
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے
بغرضِ اصلاح و تصحیحِ نسلِ اِنسانی جماعت انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک یا دو یا
چند معجزات سے متصف فرماکر ایک بعد دیگرے ضروت کی پیش نظر مبعوث فرماتا رہا بالآخر
جس کے لیے کائنات کی رنگت و رعنائیاں سجائی گئی تھیں جس کے عشق میں شجر و حجر ،
برگ و ثمر ، خشک و تر ، ماہ و نجوم دنیا کی ہر شئی مچل رہی تھیں اعنی خاتم الانبیاء
والمرسلین غمگسارِ امت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو مبعوث فرما کر انسانوں کو کھانے پینے
کا طریقہ ، بیٹھنے سونے کا سلیقہ عطاء کیا بعدہ امت کے علمائے کرام کے کاندھوں پر
اصلاح و تصحیح کی باگ ڈور سپرد کرتے ہوئے محسن اعظم سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا
" أن العلماء ورثة الأنبياء" بیشک علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ یہ صحیح
احادیث سے ثابت ہے سنن ترمذی ،سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن حبان و دیگر کتب احادیث میں
حضرت ابو درداء لقد رضی المولیٰ عنہ ایک طویل حدیث کا ایک جملہ ہے۔ بات تلخ ضرور
ہے مگر احقاق حق ابطال باطل اہلسنت کے ہر ہر فرد کا شیوہ ہے میں مخاطب ہوں اپنے ان
علماء سے جو فرائض و واجبات سے رشتہ منقطع کیے ہوئے ہیں وہ عوام جو علم سے عاری ہے
ان کی منہ سے جب یہ جملہ سننے کو ملتا ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے " نماز کی
جب آذان ہوتی ہے تو چند علماء حضرات پان وغیرہ کے ساتھ گپ شپ میں نماز کے وقت کو
نکال دیتے ہیں نماز کے لیے نہیں جاتے ہیں عوام اس سے باطل نتائج مرتب کر اہل دیابنہ
کے ناپاک گروہ میں شامل ہورہی ہے خدارا اسلام و سنیت کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کے
کندھوں پر ہے محافظ بنیں ورنہ کیا بات بن پائے گی جب سامنا ہوگا اللہ و رسول کا ویسے
آپ حضرات کو معلوم ہی ہے اللّہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ
مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3) اے
ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ
وہ کہو جو نہ کرو۔ (سورہ صف آیت 3)
شانِ نزول :حضرت عبد اللّٰہ
بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم چند صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمْ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،ہم میں
اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل محبوب ترین ہے
اگر ہمیں معلوم ہو جاتا تو ہم اسی پر عمل
کرتے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : ’’سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ
وَ مَا فِی الْاَرْضِۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱)یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘
قول اور فعل میں
تضاد نہیں ہونا چاہئے : اس آیت سے معلوم ہوا کہ قول اور فعل
میں تضاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے قول کے مطابق عمل بھی
کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ اس تضاد کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے لوگوں کو اچھی باتیں بتانا لیکن خود ان پر عمل نہ کرنا ،یا کسی سے
وعدہ کرنااور اس وقت یہ خیال کرنا کہ میں یہ
کام کروں گا ہی نہیں ،صرف زبانی وعدہ کر لیتا ہوں ،وغیرہ یعنی ایک بات کہہ دیتا
ہوں لیکن پوری نہیں کروں گا۔ اَحادیث میں
ان چیزوں کی خاص طور پر شدید مذمت اور وعید بیان کی گئی ہے ،چنانچہ جو لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں اور خود برائیوں میں
مبتلا رہتے ہیں ان کے بارے میں حضرت اسامہ
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا
جائے گا، پھر اسے دوزخ میں ڈال دیاجائے گا،اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھر جائیں گی
اور وہ اس طرح گردش کررہا ہوگا جس طرح چکی کے گرد گدھا گردش کرتاہے، جہنمی اس کے
گرد جمع ہوکراس سے کہیں گے :اے فلاں !کیابات
ہے تم تو ہم کونیکی کی دعوت دیتے تھے اوربرائی سے منع کرتے تھے ۔وہ کہے گامیں تم کونیکی کی دعوت دیتا تھا لیکن خود نیک کام
نہیں کرتا تھا اور میں تم کو تو برائی سے روکتا تھا مگر خود برے کام کرتا تھا۔(
بخاری، کتاب بدء الخلق،)
حضرت
انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شب ِمعراج میرا
گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹ
آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ میں نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام ،یہ
کون لوگ ہیں ؟انہوں نے عرض کی :یہ آپ کی امت کے وہ وعظ کرنے والے ہیں جووہ باتیں کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے ۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب)
ذات
باری تعالیٰ پر یقین کامل ہے کہ اگر علماء حقیقی معنوں میں " إِنَّمَا
یَخۡشَى ٱللَّهَ مِنۡ عِبَادِهِ ٱلۡعُلَمَـٰۤؤُا۟ۗ " کا مصداق
بنیں اسلام و سنیت کی نشر واشاعت کیلیے پہلی ضرورت خشیت الہی ہے خیر
یہ
قصۂ لطیف ابھی ناتمام ہے جو کچھ بیاں ہوا آغاز باب تھا
مولیٰ
کریم کی بارگاہ اقدس میں دعا گو ہوں کہ مولیٰ کریم جملہ علماء کرام کے دلوں میں خشیت
الہی و عشق رسول پیدا فرمادے پیارے حبیب پاک ﷺ کے صدقے مذہب اسلام کی خوب خوب کارِ
خدمت انجام دینے کی توفیق بخش دے استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔

Comments
Post a Comment