ماہ نور اور ہماری ذمہ داریاں نیپال اردو ٹائم شمارہ نمبر 1 (محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی بنوٹا، مہوتری، نیپال نائب ایڈیٹر : نیپال اردو ٹائمز )

 



محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی بنوٹا، مہوتری، نیپال

نائب ایڈیٹر : نیپال اردو ٹائمز 

     ماہ نور کی جلوہ گری ہے ، سید ابرار واخیار، نور دیدۂ آمنہ، جگر گوشۂ حضرت عبد اللہ،  پیارے مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کی آمد آمد ہے، ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے،محسن ِانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے جشن منائے جارہے ہیں،میلاد کی محفلیں سجائی جارہی ہیں، سیرت طیبہ پہ جلسے ہورہے ہیں،  ان سب کاموں کےپیچھے عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ کارفرما ہے، کیوں نہ ہوکہ سرور کائناتﷺکی میلاد منانا،آپ کی آمدپرخوشی کا اظہار کرنا، آپ سے محبت،قلبی لگاؤ، آپ کی تعظیم وتوقیر کا واضح ثبوت ہے،بے شمار خیر وبرکت کا ذریعہ ہے۔ یوں تو خاص میلادکے جواز واستحباب پرقرآن و حدیث میں متعدد دلیلیں موجود ہیں ۔ اگر بالفرض میلادمنانےپر کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی یہ عمل خیر، ارشاد خداوندی'' وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون'' کے عموم میں داخل  ہوتا۔کیوں کہ آیت مبارکہ میں موجود کلمۂ ''خیر'' کا مفہوم بہت کشادہ ہے،جس میں ہر بھلائی کی گنجائش ہے۔

ماہ نورکی ہرگھڑی بڑی قیمتی ہےاس ماہ مبارک کی فضیلت دوسرےمہینوں سے زیادہ ہے، اس کی تعظیم ضروری ہے، اس پہ خوشیاں منانا علامت سنیت ہے،اس مہینہ میں   خاص طورسےبارہویں تاریخ  کودرج ذیل امور خلوص نیت اور شرعی حدود میں رہ کر کیا جائے تو کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوگا، اور  یقینادنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی۔

بحیثیت مسلم ہم پہ ضروری ہے کہ ان امور کو خود بھی انجام دیں  اور دوسروں کو بھی ان سے روشناس کرائیں۔

(۱)اس دن ذکر ولادت رسول اللہﷺکثرت سےکریں ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:((وَذَکِّرْھُمْ بِأیَّاْمِ اللّٰہِ))حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کےنزدیک ایام اللہ سےمراد وہ  دن ہیں جن میں اللہ کی نعمت کانزول ہواہو،ان ایام میں سب سےبڑی نعمت کے دن حضورﷺکی ولادت اورمعراج کےدن ہیں ،ان کی یادقائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)(۲)بارہویں تاریخ کواپنےمکانوں کوسجائیں اورخوب چراغاں کریں۔ حضرت فاطمہ بنت عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ:میں حضورﷺ کی پیدائش کےوقت ان کی والدہ کے پاس تھی ، میں نےمیں نے دیکھا  کہ گھر میں ہرچیزنور سےجگمگااٹھی۔(تاریخ طبری،ج۱،ص۴۵۴)

(۳)دوکانوں اورمکانوں میں جھنڈےلگائیں جیساکہ ولادتِ رسولﷺکےموقع پراللہ تعالیٰ نےلگوائے تھے۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:حضورکی ولادت کے وقت میں نے تین جھنڈے دیکھےایک جھنڈاپورب میں گڑاتھاایک پچھم میں اورایک کعبہ کی چھت پر۔(الخصائص الکبریٰ، ج۱،ص۸۲)

(۴)خوشیاں منائیں اورایک دوسرے کوآمدِرسول ﷺکی مبارک بادی پیش کریں۔اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اورنعمت پر خوشی منانے کاحکم دے  رہاہے۔ارشادربانی ہے:((اےمحبوب آپ فرما دیجئے کہ وہ اپنے رب کےفضل اور اس کی رحمت کےسبب خوشی منائیں)) (سورہ: یونس۱۰، آیت ۵۸)

(۵)لوگوں کوکھاناکھلائیں اورخوب صدقہ وخیرات کریں۔امام قسطلانی فرماتے ہیں کہ:ہمیشہ سے اہل اسلام حضور کی ولادت کے مہینہ میں کھاناکھلاتےاورربیع النورکی راتوں میں صدقات وخیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کارلاتے۔(المواہب اللدنیہ،ج۱،ص۱۴۸)

(۶)صلاۃوسلام کی کثرت کریں ،کہ یہ ہماری نجات کاذریعہ ہے۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی بارگاہِ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ: ’’اےاللہ میراکوئی عمل تیری بارگاہ میں پیش کرنے کےلائق نہیں میرےتمام اعمال میں فسادِ نیت موجودہیں مگر مجھ فقیرکاایک عمل تیری عنایت کی وجہ سے بہت شاندارہے اور وہ یہ کہ محفل میلاد کے وقت میں کھڑےہوکر تیرے حبیب ﷺکی بارگاہ میں نہایت ہی خلوص کےساتھ صلاۃ وسلام بھیجتارہاہوں‘‘۔(اخبارالاخیار،ص۷۲۲)

(۷) نہایت ہی ادب واحترام کےساتھ جلوس محمدیﷺکااہتمام کریں۔جب مدینہ میں رہنے والےصحابہ کوحضورکی آمدکی اطلاع ہوئی تو سب آپ کے استقبال کے لیے مدینہ طیبہ سےباہرنکل آئےتھے آپ کی آمدکی خوشی میں ہرعاشق رسول جھوم جھوم کریارسول اللہ کے نعرےبلند کررہاتھا۔(مسلم شریف: ج۲، ص۴۱۹)

(۸)بارہویں کوروزہ رکھیں۔کہ حضورﷺاپنی ولادت کے دن روزہ رکھتے تھے۔حضرت ابوقتادہ سےمروی ہے کہ:پیرکےدن روزہ رکھنے کےبارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا تو آپﷺ نےفرمایا کہ اسی روزمیری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پرقرآن شریف نازل کیاگیا۔(مسلم شریف:ج۱،ص۳۶۸)

(۹)سبیلیں لگائیں اورشربت وغیرہ کا انتظام کریں۔کہ اللہ تعالیٰ نےولادتِ رسول کےوقت شربت پلایاتھا۔حضرت آمنہ فرماتی ہیں: جب مجھے عورتوں کی طرح درد زِہ شروع ہوا تومیں نے اچانک اپنے سامنےایک سفید شربت پایاجسے میں نے پی لیاوہ شہدسےزیادہ میٹھاتھا۔ (المواہب اللدنیہ:ج۱،ص۱۲۵)

(۱۰)قرآن خوانی اورایصال ثواب کریں،امام جلال الدین سیوطی کےنزدیک تلاوتِ قرآن اورمیلاد کا تذکرہ کرناان بدعات حسنہ میں سےہے جن پرثواب ملتا ہے۔(حسن المقصد:ج۱،ص۱۸۹)

(۱۱)پورےسال اس نعمت پرخوشی منائیں۔روایت میں آیاہےکہ:جس سال نورِمحمدی حضرت آمنہ کوودیعت ہواوہ فتح ونصرت کاسال کہلایا(خصائص الکبریٰ،ج۱،ص۴۷)

(۱۲)ان تمام کاموں کواخلاص کےساتھ کریں نہ کہ دکھاوےکےلیے؛کیوں کہ دکھاوےکےسبب سارےاعمال اکارت ہوجاتے ہیں۔حضورﷺ نے صحابہ سےفرمایاکہ: میں تمہارےبارے میں جس چیز سےڈرتا ہوں وہ شرکِ اصغرہے،صحابہ نے پوچھایارسول اللہ شرک اصغرکیاہے؟ فرمایا: دکھاوے کے لیے کام کرنا۔(مشکوۃ:ص۴۵۶)

ان سب ذمہ داریوں کے بعد بحیثیت مسلم ہم پہ کئی سماجی، اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کو بحسن  خوبی انجام دے کر  دیگر اقوام     عالم کو مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ مثلا:

(۱)جلوس میں عورتوں  کی حاضری پہ سخت لگام لگائی جائے ۔ (۲) ڈی جے اور کثرتِ لاؤڈ اسپیکر  کے استعمال سے  اجتناب کیا جائے۔ (۳)افراط و تفریط سے گریز کیا جائے۔ (۴) غیر اخلاقی اور جذباتی نعروں سے بالضرور بچا جائے۔  (۵) راہ چلتے کسی بھائی کی مالی نقصان نہ ہونے پائے۔ (۶) راستے میں سلیقے سے صلاۃ و سلام و نعت خوانی کرتے ہوئے باادب جائیں۔ (۷) راستے میں ایک جانب سے جائیں۔(۸) گانا باجا اور کود پھانگ بالکل بھی نہ کریں۔ (۹) جلوس میں اسلامی جھنڈوں کے ساتھ اپنے ملک کا جھنڈا بھی شامل کر لیں۔ (۱۰)جلوس کے بعد جھنڈوں کو یوں ہی نہ پھینک دیں بلکہ ان کو اپنے گھروں پہ لگا دیں، یا ان کو حفاظت سے رکھ دیں آئندہ سال کے لئے۔ 

مختصرا یہ کہ ماہِ نور کی خوشی بھی منائیں ، اس کی مبارکبادی بھی  ایک دوسرے کو دیں، گھر گھر چراغا بھی کریں، میلادیں بھی منائیں، ساتھ ہی اپنا اسلامی  شرعی، اخلاقی  اور سماجی  طریقہ  ہاتھوں سے پامال نہ ہونے  پائے ، بلکہ مزید اس طرح خوش اسلوبی کا مظاہرہ کریں کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اسلامی تعلیمات اور آپ کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو جائے۔

Comments